1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمل داری کے بعد پہلے اعلیٰ طالبان فوجی کمانڈر کی ہلاکت

3 نومبر 2021

کابل کے ملٹری ہسپتال میں داعش کے ایک حملے کے نتیجے میں طالبان کا ایک اہم کمانڈر مارا گیا ہے۔ اگست ميں طالبان کی عمل داری کے بعد اس وسطی ایشیائی ملک میں کسی دہشت گردانہ حملے میں کسی اہم طالبان کمانڈر کی یہ پہلی ہلاکت ہے۔

Kabul, Afghanistan | Explosionen in der Nähe von Militärkrankenhaus
تصویر: Bilal Guler/AA/picture alliance

افغان طالبان نے تصدیق کر دی ہے کہ کابل کے ملٹری ہسپتال میں داعش کے جنگجوؤں کی طرف سے کیے گئے ایک حملے کے نتیجے میں ان کا ایک اہم کمانڈر مارا گیا ہے۔ 

کابل میں طالبان نے بدھ کے دن بتایا کہ حقانی نیٹ ورک سے وابستہ کابل کے کور کمانڈر حمد اللہ مخلص داؤد سردار خان ہسپتال پر حملے کی اطلاع کے بعد فوری طور پر وہاں پہنچے اور داعش کے جنگجوؤں کو پسپا کرنے کے آپریشن میں آگے آگے تھے۔ تاہم وہ اس پر تشدد کارروائی میں مارے گئے۔

طالبان کی بدری اسپیشل فورس کے رکن حمداللہ مخلص طالبان کے ایسے پہلے فوجی کمانڈر ہیں، جو افغانستان پر طالبان کی عمل داری کے بعد پرتشدد کارروائی میں ہلاک ہوئے ہیں۔ سخت گیر موقف کی حامل جنگجو تنظیم داعش خراسان طالبان کی حریف ہے جب کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجی مشن کے بعد اس نے طالبان پر حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

کابل کی بش مارکیٹ بھی خسارے میں

03:09

This browser does not support the video element.

منگل کو داؤد سردار خان ہسپتال پر داعش خراسان کے اس حملے کے نتیجے میں کم ازکم انیس افراد ہلاک جب کہ پچاس سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ پہلے خود کش حملہ کیا گیا اور بعد ازاں داعش خراسان کے جنگجو ہپستال میں داخل ہو گئے۔ اسی دوران حمد اللہ مخلص کو جب اطلاع ملی تو وہ جائے وقوعہ روانہ ہو گئے۔

طالبان کے ایک ترجمان کے مطابق حمداللہ کو روکا گیا تھا تاہم وہ مسکرا کر داعش کے جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کی قیادت کی خاطر ہسپتال پہنچے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مارے گئے ہیں۔

داعش خراسان نے ٹیلی گرام چینل پر جاری کیے گئے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پانچ جنگجوؤں نے منظم انداز میں یہ کارروائی کی۔ ادھر ذبیح اللہ مجاہد نے اس حملے میں ہلاکتوں کی تعداد پندرہ بتائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی بروقت مداخلت کی وجہ سے یہ حملہ ناکام بنا دیا گیا، اس لیے جانی نقصان کم ہوا۔

اگرچہ طالبان اور داعش کے جنگجو دونوں ہی سنی اسلام کے سخت گیر نظریات کے حامل ہیں تاہم یہ دونوں انتہا پسند گروپ مذہب کی تشریحات اور اس اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی حکمت عملی پر شدید اختلافات کا شکار ہیں۔

ع ب / ع س / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں