1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’عوام سے معذرت لیکن یہ سب کچھ کرنا ضروری ہے‘

شکور رحیم، اسلام آباد12 اگست 2014

پاکستان میں چودہ اگست کو یوم آزادی کے موقع پر تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے حکومت مخالف مارچ سے چھتیس گھنٹے قبل دارالحکومت اسلام آباد کی انتظامیہ نے شہر کو سیل کرنا شروع کر دیا ہے۔

تصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

سینکٹروں کنٹینرز کی مدد سے اسلام آباد کے داخلی راستوں کو نہ صرف سیل کیا جارہا ہے بلکہ بعض مقامات پر متبادل راستوں سے رسائی بند کرنے کے لئے کھدائی بھی کی جارہی ہے۔ فوج کے ساڑھے تین سو جوانوں سمیت فرنٹیئر کانسٹیبلری کے تین ہزار اور رینجرز کے نیم فوجی دستوں سمیت تیس ہزار پولیس اہلکار سکیورٹی کی ڈیوٹی سر انجام دیں گے۔

بارہ لاکھ نفوس پر مشتمل شہر اسلام آباد میں بعض مقامات پر شہریوں نے پٹرول کی قلت اور اشیاء خورد و نوش کی رسد میں ممکنہ رکاوٹوں کے خدشے کے پیش نظر گھروں میں کھانے پینے کی اشیاء کا ذخیرہ بھی کرنا شروع کر دیا ہے۔ خیال رہے کہ تحرک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کا احتجاج پر امن ہو گا لیکن انہوں نے کارکنوں کو یہ ہدایت بھی کہ ہے کہ وہ چند دنوں کے لئے کھانے کا سامان ساتھ لے کر آئیں۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے منگل کے روز ایک مرتبہ پھر شہریوں کو پہنچنے والی تکالیف پر معذرت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں حفاظتی نقطہ نظر سے سب کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمارے پاس جو اطلاعات ہیں وہ بہت خطرناک ہیں۔ وہ اطلاعات ان لوگوں کی طرف سے جو لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ وہ خفیہ اطلاعات ان دہشت گرد گروہوں کی طرف سے بھی ہیں جو پاکستان کے اوپر دوبارہ کوئی حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اس طرح کی کارروائی کر کے پلیٹ میں رکھ کر انہیں ایک موقع فراہم کر رہے ہیں کہ وہ کوئی کارروائی کرنے میں دشواری محسوس نہ کریں۔‘‘

اس سے قبل قومی اسمبلی نے منگل کے روز جمہوریت اور پارلیمانی بالادستی کی حمایت میں متفقہ قرار داد منظور کی ۔ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ملک کی بقاء اور سالمیت جمہوریت سے وابستہ ہیں۔ قرار داد کے متن میں مزید کہا گیا ہے ، ’’ہم قائداعظم کے وژن کے مطابق ووٹ کے ذریعے قائم ہونے والے ملک میں جمہوریت کا تحفظ کریں گے اور آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘‘

یہ قرار داد منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے پیش کی تھی جسے ایوان میں موجود پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کے اراکین نے متفقّہ طور پر منظور کیا۔ اس سے قبل اسپیکر نے قومی اسمبلی میں معمول کی کارروائی معطل کرکے موجودہ سیاسی صورت حال پر بحث کی اجازت دی۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی طاقت نے پارلیمنٹ یا ہمارے مینڈیٹ کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں نکال دیں گے۔ محمود خان اچکزئی نے جذباتی انداز میں کہا، ’’میں فتوٰی دیتا ہوں کہ آئین کو چھیڑنے والے کے خلاف بغاوت جائز ہے، جو آئین اور جمہوریت کا مخالف ہے، میں اس کے خلاف لڑوں گا اور جو بھی آئین اور جمہوری نظام کو تسلیم کرتا ہے ہم اس کے ساتھ ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا حزب اختلاف کے رہنما عمران خان اس ایوان کے رکن ہیں اور وہ یہاں آکر بات کریں تو اچھے لگیں گے۔ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی اور حکمران مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے عمران خان اور طاہر القادری کے چودہ اگست کو حکومت مخالف مجوزہ مارچ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کی کوشش قرار دیا۔

تاہم تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی غلام سرور خان نے کہا کہ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور اپنا جاتا ہوا اقتدار بچانے کے لئے ہاتھ پیر مار رہی ہے۔ حکومت کے سا تھ آخری لمحات میں کسی قسم کی مفاہمت کے امکان کو رد کرتے ہوئے غلام سرور خان نے کہا، ’’جو ہمارے مطالبات ہیں تو اس پر ہم نے صاف کہہ دیا ہے کہ اب ان سے بات چیت ناممکن ہے ۔ اس مرحلے پر ہم ان کے ساتھ کسی قسم کی گفت و شنید کرنے کے لئے تیار نہیں اور ہماری جماعت کے سربراہ نے اپنا مطالبہ دے دیا ہے کہ وزیر اعظم عہدہ چھوڑ دیں۔‘‘

دریں اثناء پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف آج شب مقامی وقت کے مطابق آٹھ بجے قوم سے خطاب کریں گے۔ حکومتی عہدیداروں کے مطابق وزیر اعظم اپنے خطاب میں قوم کو اپنی حکومت کی کارکردگی اور موجودہ سیاسی صورتحال پر اعتماد میں لیں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر اعظم کا خطاب حکومت اور پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی عمل جاری رہنے کے تناظر میں اہم ہو گا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں