1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عوام یا بے لگام مشتعل ہجوم

28 جون 2024

مدین کا حالیہ لرزہ خیز سانحہ ہمارے معاشرے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا قانون نافذ کرنے والے اور دیگر ریاستی ادارے ایسے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں؟ خوفناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایسے سوالیہ نشانوں کی بھرمار ہے۔

تصویر: privat

سورج ڈھلنے پر بھی آسمان ابھی تک آگ برسا رہا تھا۔ تپتی ہوئی زمین سے بھاپ کے بھبھکے نکل رہے تھے۔ سیالکوٹ کے محلہ پاک پورہ کے ایک گھر کے چھوٹے سے باورچی خانے میں ماں چاول ابالتے ہوئے کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ محلے میں خبر اڑی ہوئی تھی کہ سلیمان قمر ملائیشیا سے آیا ہوا ہے اور سیالکوٹ آنے کے بجائے سوات کے پرفضا مقام مدین چلا گیا ہے۔

چولہے میں جلتی آگ کی لو اماں کی طرف لپکی تو بے ساختہ ان کے منہ سے  ’’یا اللہ خیر‘‘ نکلا اور دفعتاً انہوں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ ہاتھ جلا نہیں تھا صرف جلد جھلس کر سکڑ گئی تھی۔ معمولی جلنے کی جلن بھی کتنی تکلیف دہ تھی۔ چولہے کی آنچ مسلسل بھڑکتی جارہی تھی۔

عین اسی وقت مدین کے پولیس اسٹیشن کے باہر بھی آگ کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ لوگوں کا ایک جم عفیر موجود تھا، جو ایک انسان کو بھڑکتی ہوئی آگ میں جلتا اور اس کے جسم سے اٹھتے شعلوں کو دیکھ کر نعرہ تکبیر کے نعرے بلند کر رہا تھا۔ کچھ لوگ قہقہے لگاتے ہوئے تو کچھ بے حسی سے اس ہولناک منظر کو اپنے موبائل فون میں قید کر رہے تھے بالکل ایسے کہ جیسے یہ ان کے لیے ایک تفریح کا سامان ہو۔

آگ میں جلنے والا یہ فربہ جسم سیالکوٹ کے محلے پاک پورہ کا سلیمان قمر تھا، جو گھومنے پھرنے کی غرض سے سوات آیا اور جسے''مبینہ‘‘ طور پر قرآن کی بے حرمتی کی پاداش میں پولیس کے حوالے کیا گیا، جہاں اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی۔

لیکن لوگوں کا جوش ایمانی ٹھنڈا نہ پڑا اور جتھے نے تھانے پر دھاوا بول کر پولیس کی حراست سے سلیمان کوباہر نکال لیا۔ بہیمانہ تشدد کرنے پر بھی دلی تسکین نہ ہوئی تو جسم کو آگ میں جھونک دیا۔ مشتعل ہجوم میں کم عمر لڑکے، درمیانی عمر کے مرد اور عمر رسیدہ افراد سبھی شامل تھے لیکن سب کے چہروں پر  ''بے حسی،  ظالمانہ قہقہے اور  درندگی ایک سی تھی۔‘‘

دوسرے ہی لمحے اس بربریت کو جواز فراہم کرنے کی خاطر بنا ثبوت اور تحقیق کے سلیمان قمر کو پورے سوشل میڈیا پر ملعون قرار دے دیا گیا۔  الزام لگانا ہمارے جیسے معاشروں کا ہی طرہ امتیاز رہا ہے۔

سلیمان قمر کی ماں نے اپنے معمولی سے جھلسے ہوئے ہاتھ کو دیکھا، جس میں ابھی بھی جلن اور درد کی چبھن تھی۔ یہ سوچ کر کہ سلیمان کو جلتے ہوئے کتنی تکلیف ہوئی ہو گی، ماں نے ایک جھرجھری لی۔ ڈبڈباتی آنکھوں سے سلیمان کی بیوہ ماں نے کیمرے کے سامنے اپنے بیٹے سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ جہاں معاشرے خود ہی قاتل اور خود ہی منصف بن جائیں تو اپنے خاندان کو بچانے کا غالباً یہی واحد رستہ بچتا ہے۔

ایک قوم سے ہم کب، کیوں اور کیسے ایک مشتعل اور بے لگام ہجوم میں تبدیل ہوئے،اکثریت کو شاید خود بھی نہ یاد ہے نہ ادراک۔ عوام کو ایک ہجوم میں بدلنے کی ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہماری اپنی ریاستی پالیسیاں ہیں۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معاشرے کو رفتہ رفتہ ایک بڑے قید خانے میں تبدیل کیا، جہاں ہر سوچنے سمجھنے اور سوال کرنے کی روایتوں کو رد کر کے سانس لینے کے تمام رستوں کو مسدود کر دیا گیا۔ مکالمے کی جگہ  ''مار دو، کاٹ دو، جلا کر بھسم کردو‘‘ کی بے سمت راہ اپنائی گئی۔

مذہب کی آڑ لے کر پہلے ایسے مشتعل ہجوم پاکستان میں بسنے والی غریب اقلییتوں کے لیے موت کے فرشتے ثابت ہوئے۔ جب ہمارے کرتا دھرتا خاموش تماشائی بنے رہے تو ہجوم کے منہ کو لہو لگ گیا اور اس بے لگام ہجوم کو ایسے درندگی کے کھیل کُھل کر کھیلنے میں مزہ آنے لگا۔ اس کے بعد چاہے وہ سری لنکا سے آیا ہمارا مہمان پریانتھا کمارا ہو یا سرگودھا کے متمول گھرانے کا نذیر مسیح یا جامعہ کا ہونہار طالبعلم مشال خان۔

مشتعل ہجوم ریاست کی رٹ اور قانون کی دھجیاں ہر سانحہ پر بُری طرح اڑاتا ہے اور ان دھجیوں کو سمیٹنے کا مرحلہ شروع بھی نہیں ہو پاتا کہ ایک نئے لرزہ خیز واقعے کی بازگشت پورے ملک میں دوبارہ سنائی دینے لگتی۔ پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہمارا مقدر بننے لگی لیکن نہ کسی ادارے کے کان پر کوئی جوں رینگی نہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کوئی سنگین کارروائی ہوتی نظر آئی۔ کیونکہ یہ معاشرہ بے شرم و بے حس ہجوم بن چکا ہے۔ اور ایک ہجوم کے لیے کیسا قانون اور کس قانون کی پاسداری ؟

اس ہجوم نے پہلے مذہب کارڈ کو ملک کی غیر مسلم کمیونٹی کے خلاف استعمال کیا اور اپنے ہی لاگو کیے گئے قانون کے مطابق اُن کی پوری کی پوری آبادیوں کو تہس نہس کر کے سزا دی۔ اب اس مشتعل ہجوم کے سامنے کون غیر مسلم اور کون مسلمان؟  سلیمان قمر اور مشال خان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

اس سے قطع نظر کہ سلیمان توہین مذہب کا مرتکب ہوا یا نہیں یہ فیصلہ کرنا قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہے۔ جیسے عوام یا ہجوم کے ہاتھوں یرغمال بننے کا خمیازہ ہم سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور آگے نہ جانے کیا کیا اور ہونا باقی ہے یہ سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک حضرت لڑکیوں اور بچیوں کے درس گاہوں میں جانے اور ملازمت کرنے پر انہیں گندی گالیاں اور گانے گا کر فتوی دیتے نظر آ رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست کب ایسے فتنہ پروروں کو سزا سناتی ہے؟ کیونکہ ایسے ہی افراد ہجوم کو مشتعل کرنے کا باعث بنتے ہیں۔

اس ملک کو بچانا ہے تو اس بے لگام مشتعل ہجوم کو نکیل ڈالنے میں مزید دیر نہ کریں ورنہ خوف سے کتنی مزید مائیں اپنی ہی اولاد سے لاتعلقی کا اعلان کریں گی یہ کوئی نہیں جانتا۔

 نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍

 

صنوبر ناظر تاریخ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر چکی ہیں۔ مختلف غیر سرکاری فلاحی تنظیموں کے ساتھ وابستہ رہ چکی ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں