’عورتوں کو کبھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے‘
14 جون 2018
23 سالہ خدیجہ کا تعلق پاکستانی شہر لاہور سے ہے جو قانون کی طالبہ بھی ہیں۔ مئی 2016ء میں خدیجہ کے کلاس فیلو نے اس وقت اس پر مبینہ طور پر حملہ کر دیا جب وہ اپنی چھوٹی بہن کو اسکول چھوڑنے جا رہی تھی۔ خدیجہ کے مطابق چاقو کے 23 سے وار کیے گئے۔ انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا، جہاں خدیجہ کا علاج کئی ماہ تک جاری رہا۔ خدیجہ نے اس معاملے کو عدالت لے جانے کا فیصلہ کیا۔ صدیقی کے مطابق ان پر حملہ کرنے والے شخص کا نام شاہ حسین ہے جو ان کا سابق کلاس فیلو ہے اور خدیجہ نے حسین کی جانب سے رومانوی تعلق قائم کرنے کی پیشکش کو ٹھکرایا تھا۔ ابتدائی فیصلے میں شاہ حسین کو جولائی 2017 میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
دوسری جانب حسین، جو لاہور کے ایک بااثر وکیل کے بیٹے ہیں، کو اپیل کی درخواست پر 4 جون کو لاہور ہائی کورٹ نے بری کر دیا۔ اس فیصلے کو انسانی حقوق کے کارکنان اور سماجی شخصیات نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ صدیقی نے اے ایف پی کو بتایا، ’’مجھے یہ فیصلہ سن کر دھچکا لگا، لیکن یہ سچ تھا۔‘‘
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں سوال اٹھایا کہ صدیقی نے حملے کے فوری بعد حسین پر الزام کیوں عائد نہیں کیا تھا اور صدیقی نے اس حملے سے قبل حسین کو خط میں شادی کا پیغام بھیجا تھا۔ اس فیصلے پر بھی میڈیا میں اتنی زیادہ تنقید کی گئی کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس کیس کی سنوائی کا فیصلہ کیا ہے اور اس کی سماعتوں کا آغاز کچھ عرصے میں کیا جائے گا۔
حسین کے والد نے اے ایف پی کو بتایا، ’’میرا بیٹا ایک بہت ذہین طالب علم ہے وہ ایک مجرم کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘ تاہم انسانی حقوق کی بااثر آواز اور وکیل حنا جیلانی نے اے ایف پی کو بتایا کہ صدیقی کے کیس کا حالیہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا نظام کیسے خواتین کے ساتھ زیادتی کرتا ہے۔ جیلانی کہتی ہیں کہ یہ طالبہ بہت خوش قسمت ہے کہ اس کی حمایت میں اتنے لوگ سامنے آئے ہیں اور سپریم کورٹ نے اس کیس کا نوٹس لے لیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق پاکستان میں خواتین پر تشدد کے بہت سے کیس عدالتوں تک پہنچ ہی نہیں پاتے جبکہ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں جرگہ نظام رائج ہے۔ عورت فاؤنڈیشن سے منسلک رابعہ ہادی کا کہنا ہے کہ عورتوں کے وہ کیس جن کا فیصلہ جرگوں میں کیا جاتا ہے، ان میں بھی صرف ایک فیصد ملزموں کو سزائیں ملتی ہیں۔ صدیقی کا کہنا ہے کہ خواتین کو عدالتی راستہ اختیار کرنے سے روکا جاتا ہے۔ صدیقی کے بقول، ’’مجھے وکلاء کہتے ہیں کہ میں وہ واحد خاتون ہوں جو انصاف کے لیے اس حد تک لڑائی کر رہی ہے، عورتوں کو کبھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے، انہیں ناانصافی، تشدد اور بلیک میل جیسی زیادتیاں برداشت نہیں کرنی چاہیے ہیں۔‘‘
ب ج / ع ب (اے ایف پی)