سال 2022 میں عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کردہ تھیم کلائمیٹ چینج تھا۔ اس تھیم کے ذریعے ان خواتین کو سراہنے کی تحریک دی گئی تھی جو موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کردار ادا کر رہی ہیں۔ اِس سال کا تھیم ڈیجیٹل دنیا ہے۔ اس تھیم کے ذریعے دنیا کو اس جانب متوجہ کیا جارہا ہے کہ جب بھی ٹیکنالوجی اور ایجاد کی بات آئے تو برابری کا سوال ضرور سامنے رہنا چاہیے۔
یو این اگلے سال کے لیے کیا تھیم جاری کرے گا، اس سوال کا جواب تو اس وقت خود یو این کے پاس بھی شاید نہ ہو۔یہ بات البتہ یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اس تھیم کا تعلق موجودہ دور کے کسی چیلنج سے ہی ہوگا۔مغرب کی عورت نے پچھلی سات آٹھ صدیوں میں زندگی کے بنیادی سوالات حل کر لیے ہیں۔وہ امتحان گاہ سے باہر آچکی ہے۔ امتحان کے بہترین نتائج اس کے ہاتھ میں ہیں۔ زندگی کا صفحہ پلٹ کر اب وہ عملی زندگی میں اترچکی ہے۔ اب وہ سائنس اور آرٹ کی بات کرتی ہے۔ صبح زمین کا سینہ چاک کرتی ہے اور شام ستاروں کے پار اترتی ہے۔ مہینوں کی مسافت کو ایک کلِک میں سمیٹتی ہے اور ہوا کو چھو کر موسم کا مزاج بتاتی ہے۔ اسے زیب بھی دیتا ہے کہ وہ ایجاد میں حصہ ڈالے اور موسم پہ شعر کہے۔ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی طرف اشارہ کرنے والے کسی حسین سے تھیم کا انتخاب کرے۔
پاکستان میں پلنے بڑھنے والی خواتین کے لیے ایسی کوئی بھی تھیم بہت اجنبی ہے۔یہاں کی عورت ابھی امتحان گاہ میں بیٹھی ہے۔پہلا پرچہ بھی ابھی حل ہونے میں نہیں آرہا۔ پرچے میں عورتوں کی برابری کا سرے سے کوئی سوال نہیں ہے۔ اگلے سمیسٹر میں بھی ایسے کسی سوال کا امکان موجود نہیں ہے۔ عورت کی رضامندی والا باب ابھی نصاب میں شامل نہیں ہے۔ عورت کی ملکیت تو کیا، اس کی شمولیت کا پیراگراف بھی کتاب میں موجود نہیں ہے۔ اسی لیے نصاب اور کتاب سے باہر بھی کسی کو اتنی سی بات سمجھانا ابھی مشکل ہے کہ بیٹا وکٹم بلیمنگ بہت بری بات ہوتی ہے۔
ابھی تو ہم اس زمانے میں ہیں جہاں اسلامی نظریاتی کونسل عورت پر ہلکے پھلکے تشدد کی سفارشات پیش کر رہی ہے۔ قانون ساز ادارے لڑکی کے لیے شادی کی حد عمر اٹھارہ سال ماننے کو تیار نہیں ہیں۔پارلیمنٹ کے ارکان گھریلو تشدد کی روک تھام کو مشرقی تہذیب کے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں۔ملک کا ایک وزیر اعظم مخالف جماعت کے جلسوں میں شرکت کرنے والی خواتین پر طعن ارزاں کر رہا ہے۔ دوسرا وزیر اعظم بتارہا ہے کہ عورت کا لباس ٹھیک ہوجائے تو جنسی ہراسانی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کے متعلق وزیر قانون کہہ رہا ہے، ہم نے معلوم کرلیا ہے وہ تو ایک پیشہ ور خاتون ہے۔
ہم حساس لوگ ہیں۔ اپنی خواتین کو بد نظری سے بچانے کے لیے ہم نے بنوں میں موجود واحد فیملی پارک کو تالے لگوا دیے ہیں۔ ہم نے گلگت شہر کا گھیراؤ اس لیے کر رکھا ہے کہ کہیں لڑکیاں کسی صحت مند سرگرمی کا حصہ نہ بن جائیں۔ موٹروے پر جنسی جبر کا نشانہ بننے والی عورت کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ہم نے دو سوال سامنے رکھ دیے ہیں۔تم فلاں وقت میں گھر سے نکلی ہی کیوں؟ کیا گھر سے نکلتے وقت تم نے پیٹرول چیک کیا تھا؟
ہمارے پڑوس میں ایک طرف ایران ہے دوسری طرف افغانستان ہے۔ دونوں ممالک کے بیچ عقیدے کا اختلاف ہے۔ کوئی ایک مذہبی نقطہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا جس پر دونوں ممالک کے مولوی صاحبان اتفاق کرسکیں۔ سال 2022 میں دونوں کے بیچ جو واحد نقطہ مشترک نکلا، وہ عورت دشمنی تھی۔ ہم عورت کے زندہ کردار کو تسلیم نہیں کریں گے۔
افغانستان میں موجود خواتین کتابوں کے بستے، کینوس، رنگ، برش، بانسری، یونیفارم، جوتے، فٹ بال اور ہارمونیم سر پہ رکھ کر ہجرت کرگئیں۔جو خواب آنکھوں میں بسائے تھے وہ ایک ایک کر کے رستے میں کہیں گر گئے۔ یہ وہ فلم ہے جو ایران میں پیشوائیت آنے کے بعد آج سے نصف صدی قبل چلی تھی۔ جن خواتین کے پاس ہنر تھا وہ سمندر پار مہاجر کیمپوں میں آباد ہوگئیں۔ جو پیچھے رہ گئیں انہوں نے اپنی صلاحیتوں پر سمجھوتہ کرلیا۔ اب ان کا حوصلہ بھی جواب دے گیا ہے تو وہ پر امن طریقے سے اپنے دبائے ہوئے حقوق کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ کسی اور کا وہ پھر بھی کچھ نہیں بگاڑ رہیں۔ اپنے پیسوں سے خریدا ہوا اپنا ذاتی دوپٹہ جلا رہی ہیں۔ اپنے ہی سر پہ اگے ہوئے بالوں پر قینچیاں پھیر رہی ہیں۔ یہ انداز عقل والوں کو دعوت دے رہا تھا کہ آؤ ہمارے درد اور کرب کی پیمائش کرو، مگر پیشوائیت نے آگے بڑھ کر ان بچیوں کی گردن ناپ لی۔ کچھ بچیوں کو اغوا کرلیا گیا اور کچھ کی روح قبض کر لی گئی۔ روشن دماغوں کو حراست میں لے لیا گیا مگر ان دماغوں سے پھوٹنے والا نعرہ کھلی فضاوں میں برابر گونج رہا ہے۔ 'برائے زن۔۔ زن زندگی آزادی'۔
یہ محض نعرہ نہیں ہے، یہ پچھلی صدیوں کی طرف دھکیلی گئی عورتوں کی طرف سے خواتین کے عالمی دن کے لیے جاری کردہ تھیم بھی ہے۔ ان عورتوں کی زبانیں، قومیں اور جغرافیے مختلف ہیں مگر ان کا درد مشترک ہے۔ یہاں وہاں سے آنے والا یہ درد ایک امتحان گاہ میں جمع ہے۔ وہ امتحان گاہ، جو یو این ہیڈ کوارٹر سے تقریبا گیارہ ہزار کلو میٹر دور ہے۔ اس امتحان گاہ میں بیٹھی ہوئی عورتیں لکھنے سے گریزاں ہیں۔ جو وہ لکھنا چاہتی ہیں،اس کا انجام فیل ہونا ہے۔جو لکھنے پر اچھی پرسنٹیج کی ضمانت ہے، وہ یہ لکھنا نہیں چاہتیں۔
سو وہ انگلیوں میں قلم گھمارہی ہیں اور سوچوں میں گم ہیں۔یہ اس زمانے کا خواب دیکھ رہی ہیں، جب یہ امتحان گاہ سے باہر آئیں گی۔ زندگی کا صفحہ پلٹ کر عملی زندگی میں اتریں گی۔ کسی ستارے پر دنیا کی طرف پاوں لٹکا کر بیٹھیں گی اور موسموں کی باتیں کریں گی۔ بادلوں میں انگلی پھیر کر اگلے سال کا تھیم لکھیں گی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔