آٹھ مارچ کو پاکستانی خواتین کی جانب سے بھی ’عورت مارچ‘ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس مارچ پر متعدد حلقوں کی جانب سے تنقید کی گئی اور اب اس کے منتظمین کو قتل کرنے اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔
اشتہار
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر’عورت مارچ‘ کا اہتمام کرنے والی خواتین میں سے ایک نگہت داد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ تمام منتظمین سوچ رہے ہیں کہ وفاقی تفتیشی ادارے’ ایف آئی اے‘ سے رابطہ کیا جائے اور آن لائن ملنے والی دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے کی باقاعدہ شکایت درج کرائی جائے۔
نگہت داد کے مطابق، ’’مارچ میں شامل افراد اور منتظمیں کو قتل اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی دھمکیوں کا معاملہ سنجیدہ رخ اختیار کر گیا ہے۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ٹوئٹر نے ایسی دھمکیاں دینے والے ایک صارف کا اکاؤنٹ بھی بند کر دیا ہے۔ نگہت داد نے الزام عائد کیا ہے کہ اس مہم کے دوران ذرائع ابلاغ نے انتہائی منفی کردار ادا کیا ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں ہونے والا اپنی نوعیت کا یہ دوسرا اجتماع تھا۔
تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن نے گزشتہ برس اپنے ایک جائزے میں پاکستان کو خواتین کے لیے چھٹا خطرناک ترین ملک قرار دیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک ہزار خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔
خواتین کا عالمی دن: ایشیائی ممالک میں صنفی مساوات
گزشتہ چند برسوں میں صنفی مساوات کی صورتحال بہتر ہونے کے باوجود آج بھی ایشیائی خواتین اور لڑکیوں کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایشین ممالک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا۔
تصویر: NDR
افغانستان
افغانستان میں امریکا کے زیر سربراہی بین الاقوامی فوجی اتحاد نے سن 2001 میں طالبان حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، جس کے بعد سے ملک میں خواتین کے حقوق کی صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا۔ تاہم موجودہ افغان حکومت میں طالبان کی ممکنہ نمائندگی کا مطلب ہے کہ خواتین ایک مرتبہ پھر تعلیم اور روزگار جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گی۔
تصویر: Getty Images/R. Conway
ایران
ایرانی خواتین کی ایک فٹ بال ٹیم تو بن چکی ہے لیکن وہاں آزادی اور خودمختاری کی لڑائی آج بھی جاری ہے۔ ایرانی وکیل نسرین سوتودیہ کو پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی کیونکہ وہ اسکارف کی پابندی کے خلاف مظاہرہ کرنے والی خواتین کا دفاع کر رہیں تھیں۔
تصویر: Pana.ir
پاکستان
یہ پاکستان کی پہلی کار مکینک عظمٰی نواز (درمیان میں) کی تصویر ہے۔ یہ جنوبی ایشیائی ملک خواتین کی آزادی کے راستے پر گامزن ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کراچی میں خواتین ’عورت آزادی مارچ‘
#AuratAzadiMarch میں شرکت کر رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S.S. Mirza
بھارت
بھارت میں ’خواتین بائیکرز‘ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے مثبت اقدام کے باوجود خواتین جنسی تشدد اور ریپ کا نشانہ بنتی ہیں۔ گزشتہ برس، بھارت میں متعدد خواتین نے اپنے حقوق کے دفاع کے لیے آواز بلند کی۔ #MeToo مہم کے ذریعے متاثرہ خواتین معاشرے کے طاقتور مردوں کے خلاف سراپا احتجاج تھیں۔
تصویر: Imago/Hindustan Times
انڈونیشیا
انڈونیشی خواتین ملکی ترقی کا اہم حصہ ہیں لیکن ان کو قدامت پسند مذہبی قوانین کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر آچے صوبے میں شرعی قوانین نافذ کیے جانے کے بعد خواتین کو اسکارف پہننے پر مجبور کیا گیا اور خواتین کا نا محرم مردوں سے بات چیت کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔
تصویر: Imago/C. Ditsch
سری لنکا
سری لنکا میں صنفی مساوات کی صوتحال قدراﹰ بہتر ہے۔ سری لنکن خواتین تعلیم اور روزگار کا انتخاب خود کر سکتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں سری لنکا شاید واحد ایسا ملک ہے، جہاں خواتین کو صحت اور تعلیمی سہولیات تک بھرپور رسائی حاصل ہے۔
تصویر: Imago/Photothek
بنگلہ دیش
بنگلہ دیشی عوام دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ایک خاتون کا بطور وزیراعظم انتخاب کر رہے ہیں۔ ان کے دور حکومت میں خواتین کے حقوق میں واضح بہتری پیدا ہوئی ہے۔ تاہم روزگار کی منڈی میں خواتین کی نمائندگی ابھی بھی کم ہے اور صحت و تعلیم تک محدود رسائی ہے۔
تصویر: DW/M. M. Rahman
چین
چینی خواتین کو بلاشبہ ملک کی تیز معاشی ترقی سے فائدہ حاصل ہوا ہے لیکن ان کو سماج میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ آج بھی بچیوں کی پیدائش کے حوالے سے سماجی تعصب موجود ہے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں تعلیم تک محدود رسائی فراہم کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele
8 تصاویر1 | 8
اسی طرح ’عورت مارچ‘ کے انتظامات میں شریک اور ایک خاتون نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اس مارچ پر تنقید یہ واضح کرتی ہے کہ خواتین کی اس اجتماعی تنظیم نے پدرسری طاقتوں کو ڈرا دیا ہے۔
عورت مارچ کے موقع پر کچھ خواتین نے ایسے متنازعہ پلےکارڈز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر عورت کی آزادی کو یقینی بنانے اور ان کا معاشرتی اور گھریلو سطح پر ہونے والے مبینہ استحصال کا خاتمہ کرنے کی بات کی گئی تھی۔ کچھ حلقوں نے ان پلے کارڈز کو ’فحش اور نازیبا‘ بھی قرار دیا تھا۔ نو مارچ سے ہی سماجی ویب سائٹس پر یہ کارڈز موضوع بحث بنے ہوئے تھے۔