امریکی شہر ڈيلس ميں احمديہ مسلم کميونيٹی کی خواتين نے ايک انٹرفيتھ سمپوزيم کا اہتمام کيا۔ اس بین المذاہب سمپوزیم میں’’خواتین کے عطائے اختیار میں مذہب کے کردار‘‘ پر بحث ہوئی۔
تصویر: DW/M. Kazim
اشتہار
اس مباحثے کا مقصد مختلف مذاہب ميں خواتين کے کردار اور انکی اہميت سے لے کر انہیں معاشرے میں زیادہ سے زیادہ اختیارات دیے جانے کے عمل پر مختلف زاویے سے روشنی ڈالی گئی۔ اس اجلاس سے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتين نے خطاب کيا۔
ان خواتين کا تعلق بھائی مذہب، ہندومت،عيسائیت اور اسلام سے تھا۔ اس تقريب ميں مذکورہ مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اس بارے میں کُھل کر بات چیت کی کہ تمام ادیان خواتین کو کیا درجہ دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مذہب عورت کو کس حد تک با اختیار بناتا ہے،عورت کا معاشرتی درجہ آج ماضی کے مقابلے میں بلند ہے يا نہيں؟
اس اہم سمپوزيم کی آرگنائيزر، عصمت محمود کے بقول، "عورت ہونے کے ناتے سے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس موضوع کو اجاگر کريں ۔ ہر مذہب نے عورت کو ايک اہم مقام ديا ہے۔ امریکا ميں اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ مختلف مذاہب کی خواتين مل کر متحدہ ہوکر اپنی طاقت اپنے اختیارات پر بات کریں اور اس کے بارے میں ایک دوسرے کے اندر آگاہی و شعور بیدار کریں اور اسے استعمال کریں"۔
ملالہ یوسفزئی کی کہانی، جرمن بچوں کے لیے مشعل راہ
04:00
This browser does not support the video element.
اپنی تقرير کے دوران عيسائیت کی پیرو کار ريورنڈ ايمی مور نے کہا، "مذہب اور دين دومختلف چيزيں ہيں اور ميں اپنے عيسائی دين ميں اپنے آپ کو بہت مضبوط محسوس کرتی ہوں۔ ميرے دين نے عورت کو اس وقت اہميت اور اہم زمہ داری سونپی جب دور جاہلیت ميں کوئی عورتوں سے سرعام بات کرنا بھی گوارہ نہيں کرتا تھ"۔
بہائی مذہب کی ترجمانی کرتے ہوئے رنے کيفان نے اس بات پر زور ديا کہ ’’عورت کے اوپر ايک بہت بڑی ذمہ داری يہ ہے کہ اسے آنے والی نسل کی تمام ضروريات کا خيال رکھنے سے لے کر اس کی روحانی پرورش تک کرنا پڑتی ہے اور يہ اس بات کی گواہی ہے کہ عورت ہر لحاظ سے مضبوط اور با صلاحیت ہے۔ ہمارا مذہب عورت کو سماجی، سياسی اور مالی طور پر مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا حق اور ہمت ديتا ہے۔"
ہندو مت سے تعلق رکھنے والی روپم شايام نے، "شکتی" کی ديوی کے کردار اور اس کی اہميت پر زور ديتے ہوئے کہا کے يہ طاقت ہر عورت کے اندر پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا،’’ شکتی ہمارے اندر ہے۔ جب عورت کو اسکی ضرورت پڑتی ہے يہ خود بخود باہر آ جاتی ہے اور سخت ترين حالات کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کر تی ہے۔‘‘ ہندو مذہب ميں ديوی کی اہميت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ صديوں پہلے اس شکتی کی جو طاقت تھی اس سے آج کے دور ميں مرد خائف نظر آتے ہيں اس لیے اسے دبانے کی کوشش کرتے ہيں۔ اس سلسلے ميں عورت کو اپنی تمام تر طاقت کا استعمال کرنا چاہيے۔‘‘
سمپوزیم کے شرکاء ميں ذيادہ تر تعداد خواتين کی تھی تاہم چند مردوں نے بھی اس بحث میں حصہ لیا تصویر: DW/M. Kazim
ایک نو مسلم خاتون، ٹمارہ روڈنی نے عيسائیت سے مذہب اسلام ميں داخل ہونے کے اپنے تجربات کی تفصیلات بتائیں اور کہا کہ یہ ايک طويل سفر تھا۔ انہوں نے بتايا کہ مغرب ميں رہتے ہوئے دائرہ اسلام ميں داخل ہونا مشکل تھا کيونکہ مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کافی حد تک منفی تاثر پایا جاتا ہے۔ خاص طور سے عورتوں کے مقام اور حقوق کے حوالے سے۔ انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے خود تحقيق کی تب انہيں اندازہ ہوا کہ اسلام عورت کو برابری کا رتبہ اور اہميت دیتا ہے۔ بعض اوقات لوگ کلچر کو مذہب سمجھتے ہيں اور یہ غلط ہے۔ آج کی عورت انفارميشن کے دور ميں ہوتے ہوئے بھی اپنے حقوق کے ليے لڑ رہی ہے۔ دور جہالت جيسا کل تھا ويسا ہی آج بھی ہے۔
اس سمپوزیم کے شرکاء ميں ذيادہ تر تعداد خواتين کی تھی تاہم چند مردوں نے بھی اس بحث میں حصہ لیا اور سوالات بھی کیے اور اس طرح یہاں موجود مرد بھی اس مکالمے کا حصہ بنے۔ امريکا ميں مذہبی بنيادوں پر لوگ نزديک آتے دکھائی دے رہے ہيں۔ آج کی فضا ميں لوگ متجسس ہيں اور بین المذاہب تقريبات جیسے کے افطار پارٹيوں تک محدود رہنے کی بجائے اب ہفتہ وار ہونے والی بین المذاہب تقاریب اور بحث و مباحثے کا حصہ بن رہے ہیں۔
عالمی یوم خواتین پر آپ کو ان دس خواتین کے بارے میں بتاتے ہیں، جنہوں نے بے خوف و خطر اور بلند حوصلے کی بدولت تاریخ میں اپنا نام رقم کیا۔
تصویر: Imago
دنیا کی پہلی فرعون خاتون:
ہیتھ شیپسوٹ (Hatshepsut) اپنے خاوند کی موت کے بعد تاریخ میں بنے والی پہلی فرعونہ تھی۔ وہ نہ صرف کامیاب ترین حاکموں میں سے تھیں بلکہ قدیم مصر کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک حکومت کرنے والی خواتین میں سے بھی ایک تھیں۔ دو دہائیوں پر مشتمل ان کا دور حکومت نہایت پُر امن تھا جس میں تجارت کو فروغ حاصل ہوا۔ اس کے باوجود ان کے بعد آنے والے جانشینوں نے ان کا نام تاریخ سے مٹانے کی بھرپور کوششیں کی۔
تصویر: Postdlf
مقدس شہید:
سن 1425 میں انگلینڈ اور فرانس کے درمیان سو سالہ جنگ جاری تھی، جب ایک کسان کی 13 سالہ بیٹی جون پر کشف ہوا کہ وہ فرانس کی حفاطت کرتے ہوئے فرانسیسی تخت کو چارلس ہفتم کے لیے تسخیر کرے۔ 1430 میں اپنی کوششوں کے دوران ان کو گرفتار کر لیا گیا اور سزا کے طور پر زندہ جلا دیا گیا۔
تصویر: Fotolia/Georgios Kollidas
مضبوط ارادہ کمانڈر:
کیتھرین دوئم نے بغاوت کے دوران اپنے خاوند اور زار روس کے قتل کے بعد خود کو بطور نیا زار روس پیش کیا۔ انہوں نے اپنی خود اعتمادی کی بدولت روس کی عظیم الشان سلطنت پر اپنا اثر قائم کیا اور اپنی کامیاب مہمات میں پولینڈ اور کریمیا کا علاقہ تسخیر کیا۔ وہ روس میں سب سے طویل عرصہ حکومت کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔ اسی مناسبت سے انہیں’ کیتھرین دی گریڈ‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/akg-images/Nemeth
دور اندیش ملکہ:
ملک اس وقت شدید انتشار کا شکار تھا جب ایلزبتھ اول نے تخت برطانیہ سنبھالا۔ انہوں نے اپنے دور میں نہ صرف کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسالک کے درمیان جاری جنگ میں مصالحتی کردار ادا کیا بلکہ برطانیہ کو ایسے سنہری دور سے روشناس کروایا جہاں ادب اور ثقافت پھلے پھولے۔ ان کے دور میں اسپین کے عظیم بحری بیڑے کو بھی شکست فاش ہوئی۔
تصویر: public domain
حقوق خواتین کی سرگرم کارکن:
سن 1903سے برطانیہ میں خواتین کو ووٹ کا حق دلانے کے لیے جتنی بھی تحریکیں چلائی گئی، ان کی بانی ایمیلین پنکہرسٹ رہیں۔ انہیں ایک سے زائد بار جیل بھی کاٹنی پڑی لیکن ان کی انتھک تحریکوں کی بدولت 30 برس سے زائد عمر کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا۔
تصویر: picture alliance/akg-images
انقلابی:
روزا لیگزمبرگ اس زمانے میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک موومنٹ کی صدر تھیں جس زمانے میں کسی خاتون کا کسی طاقتور عہدے پر تعین ہونا ممکن نہیں تھا۔ وہ جرمنی کی کمیونسٹ پارٹی اور سپارٹکس لیگ کی بانی بھی تھیں جس نے پہلی عالمی جنگ کے خلاف آواز بلند کی۔ انہیں 1919 میں جرمن آفسروں نے قتل کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
تابکاری کی تحقیق دان:
تابکاری پر کی جانے والی پہلی تحقیق پر میری کیوری کو نوبل انعام دیا گیا۔ وہ یہ انعام حاصل کرنے والی تاریخ کی پہلی خاتون ہیں۔ ان کو دوسرا نوبل انعام، ریڈیم اور پلونیم کی دریافت پر دیا گیا۔ اس کے علاوہ وہ پیرس یونیورسٹی میں مقرر ہونے والی پہلی خاتون پروفیسر بھی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Everett Collection
ہولوکاسٹ کی آموزگار:
آنے فرانک نے سن 1942 سے سن 1944 تک کے عرصے میں اپنی ڈائری میں جو تحریریں درج کی، وہ ہولوکاسٹ کے وقت پیش آنے والے واقعات کے بارے میں نہایت اہم سند خیال کی جاتی ہے۔ 1945ء میں انہیں Auschwitz بھیج دیا گیا، جہاں ان کی موت واقع ہوئی۔
تصویر: Internationales Auschwitz Komitee
پہلی افریقی امریکی نوبل انعام یافتہ:
کینیا کی ونگاری ماتھائی1970ء میں ماحولیات اور حقوق خواتین کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا۔ وہ گرین بیلٹ موومنٹ کی بانی بھی تھیں، جس میں بھوک اور پانی کی کمی کے علاوہ خشک سالی اور جنگلات کی کٹائی کے خلاف آواز بلند کی گئی۔ انہیں ان مسائل پر آواز اٹھانے پر سن 2004 میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لڑکیوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی کم عمر ترین کارکن:
ملالہ یوسف زئی صرف گیارہ برس کی تھی جب انہوں نے طالبان کی دہشت گرد حکمرانی کے خلاف بی بی سی پر رپورٹنگ کی۔ جب ان کے اسکول کو بندش کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے خلاف انہوں نے اپنی آواز بلند کی جس کی پاداش میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ انہوں نے اپنی ایک خود نوشت بھی تحریر کی ہے۔