عید کے ڈیجیٹل رنگ: بکروں کی آن لائن خریداری سے کھالوں کی بُکنگ تک
17 اکتوبر 2013ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی تیزرفتار ترقی نے جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں کو متاثر کیا ہے، وہاں اس سے عید کی سرگرمیاں بھی نہیں بچ سکی ہیں۔ بکروں کی آن لائن خریداری اور قربانی کی کھالوں کی آن لائن بکنگ کے علاوہ مبارک باد کے پیغامات اور عید کے پکوانوں کی تراکیب سمیت سب کچھ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔
پاکستان میں غالباﹰ پہلی مرتبہ بکرا منڈیاں انٹرنیٹ پر بھی لگیں۔ بیرون ملک مقیم لوگوں کی طرف سے پاکستان میں قربانی کرنے کے رجحان میں اضافے کی وجہ سے آن لائن قربانی کی سہولتیں فراہم کرنے والے تجارتی اداروں کا کاروبار اس سال قدرے بہتر رہا۔ دوسری جانب روایتی عید کارڈوں کی جگہ ان ای کارڈز نے لے لی ہے۔
عید کی سرگرمیاں نمایاں طور پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی جاری ہیں۔ سوشل میڈیا کے امور پر نظر رکھنے والے ایک سینئر پاکستانی صحافی شہزادہ عرفان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عید منانے والے انٹرنیٹ پر ایک کمیونٹی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ان کے بقول سماجی رابطوں کی ویب سائٹس عید کی سرگرمیوں سے بھری ہوئی ہیں، جانوروں کے نرخ کیا چل رہے ہیں،کس جانورکی قربانی سے کتناگوشت نکلا ہے، کس کے جانور پر مقدس اسلامی ناموں کی مشابہت پائی جا رہی ہے، جانور ذبح کرنے کا اسلامی طریقہ کیا ہے، پکوانوں کی تیاری کے طریقے کیا ہیں، مریضوں کو عید کے دنوں میں کیا کیا احتیاطیں کرنی چاہیں، یہ ساری بحثیں انٹرنیٹ پر چل رہی ہیں۔
شہزادہ عرفان کے مطابق اب تو عید کے دنوں میں زیادہ تعطیلات کی وجہ سے انٹرنیٹ کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے، ’’اس عید پر بچوں تک نے چھوٹی چھوٹی باتیں، دوسرے ملکوں میں موجود اپنے کزنوں کے ساتھ اسکائپ کے ذریعےشیئر کیں ہیں، جیسے انہوں نے کون سے کپڑے عید پر پہنے، ان کی چوڑیاں کیسی تھیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ دور دراز کے رشتہ داروں کو عید مبارک کہنے کے لیے وائبر کا استعمال بھی کافی دیکھنے میں آیا۔‘‘
ایک آئی ٹی ایکسپرٹ محمد عبداللہ نے بتایا کہ ان کے سعودی عرب اور امریکہ میں موجود دو بھائیوں نے قربانی کے لیے پیسے بجھوائے تھے، ان کو سکائپ کے ذریعے منڈی میں بکرے دکھائے گئے، انہوں نے ریٹ خود ’’نیگوشی ایٹ‘‘ کیا، ان کو گلی میں قربانی کے جانوروں کی چہل قدمی اور چارہ کھانے کے مناظر بھی دیکھائے گئے،گوشت بنانے کا عمل اور کھانے پکانے کے مناظر بھی ان کے خاندان نے لائیو دیکھے، ’’ہم نے اپنا لیپ ٹاپ ٹی وی کے ساتھ منسلک کر دیا تھا، یوں عید کا کھانا بھی ان کی نظروں کے سامنے تھا، اس طرح وہ لوگ عید کے موقعے پر ایک طرح سے ہماری سرگرمیوں میں شامل رہے۔ گھر میں نیٹ چل رہا تھا، خواتین کپڑوں کے ڈیزائن بھی دیکھ رہی تھیں اور گپ شپ بھی جاری رہی۔‘‘
چوہدری سہیل گجر نامی ایک نوجوان نے گھر کے اس بیرونی گیٹ کی تصویر فیس بک پر لگائی ہے جس پر لکھا ہے، ’’گوشت ختم ہو گیا ہے، گھنٹی بجا کر تنگ نہ کریں۔‘‘
لاہور کی بادشاہی مسجد میں نماز پڑھنے والے طاہر ملک نے نماز کے بعد اسی جگہ اپنے دوستوں کے ساتھ بنوائی گئی اپنی تصویر کو فیس بک پر شیئر کیا ہے۔ عید کے لیے گڑھی خدا بخش پہنچنے والے سابق صدر زرداری،عید کے دن والدہ کی قبر پر دعا مانگتے ہوئے سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق اور شیخ رشید کی طرف سے قربانی کے لیے خریدے گئے جانوروں کی تصاویر بھی فیس بک پر موجود ہیں۔ پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کی طرف سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے تصویر میں بتایا گیا ہے کہ فوجی جوان عید کے موقعے پر بھی بلوچستان کے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ایک صاحب نے اکٹھے بیٹھے دو خوبصورت بکروں کی تصویر فیس بک پر اپ لوڈ کر کےنیچے یہ شعر لکھا ہے، ’’اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبابوں میں ملیں‘‘۔
ایک نوجوان نے فیس بک پر عید کی مبارک باد کے ساتھ یہ دعا بھی تحریر کی ہے، ’’یا اللہ آج کی رات سب کچھ ہضم ہو جائے۔‘‘ ساتھ ہی یہ پیغام پڑھنے والوں سے آمین کہنے کی اپیل بھی کی گئی ہے۔
عید کے روز کے پی کے میں ہونے والے خود کش دھماکے کا دکھ بھی فیس بک پر نظر آ رہا ہے۔ ایک صحافی نواز طاہر نے خوشی کے لمحوں میں دہشت گردی کے تناظر میں لکھا ہوا اپنا کالم ’’چاند عید سے کیوں ڈرتا ہے‘‘ اپ لوڈ کیا ہے۔ اس کالم میں بتایا گیا ہے کہ چاند کو لگتا ہے کہ میں پھر نکلا تو عید آ جائے گی اور کئی آنکھیں چھلک جائیں گی۔
ٹویٹر پر ایک صاحب نے لکھا، ’’امید ہے کہ جانوروں کی قربانی کے بعد آپ نے اپنے اندر کے جانور بھی قربان کر دیے ہوں گے۔‘‘