’عین وقت پر‘ شمالی اور جنوبی کوریا کا وقت بھی ایک ہو گیا
5 مئی 2018
شمالی کوریا نے اپنے معیاری وقت میں تبدیلی کرتے ہوئے اپنا اور جنوبی کوریا کا معیاری وقت یکساں کر دیا ہے۔ جزیرہ نما کوریا کی دونوں ہمسایہ لیکن حریف ریاستوں کے معیاری وقت میں پہلے آدھ گھنٹے کا فرق تھا، جو اب ختم ہو گیا ہے۔
اشتہار
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول سے ہفتہ پانچ مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق کمیونسٹ کوریا نے اپنے معیاری وقت میں آج سے جو تبدیلی کی ہے، اسے پیونگ یانگ نے ’دونوں کوریاؤں کو ایک کرنے کے مقصد کی طرف پہلا قدم‘ اور شمالی اور جنوبی کوریا کی حالیہ تاریخی سمٹ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
شمالی کوریا کے رہنماکم جونگ اُن نے اپریل کی 27 تاریخ کو دونوں ممالک کے درمیان غیر فوجی علاقے کے جنوبی کوریائی حصے میں جنوبی کوریا کے صدر مون جے اِن سے جو تاریخی ملاقات کی تھی، اس میں انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ کمیونسٹ کوریا جلد ہی اپنا معیاری وقت تبدیل کر کے دوبارہ جنوبی کوریا کے معیاری وقت کے برابر لے آئے گا۔
اس بارے میں شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی کے سی این اے نے آج بتایا کہ کم جونگ اُن نے مون جے اِن سے حالیہ سمٹ میں جو وعدہ کیا تھا، وہ پورا کر دیا گیا ہے۔ اس خبر رساں ادارے نے بتایا کہ ملک کے معیاری وقت کو آدھ گھنٹہ آگے کر دینے کا فیصلہ شمالی کوریا کی سپریم پیپلز اسمبلی کی مجلس صدارت نے کیا۔
ٹائم زون بدلا کب تھا؟
کوریائی جنگ میں جنگ بندی کے بعد بھی کئی عشروں تک دونوں ہمسایہ ممالک کا بین الاقوامی ٹائم زون ایک ہی تھا۔ لیکن پھر 2015ء میں شمالی کوریا نے ’پیونگ یانگ ٹائم‘ متعارف کرا دیا تھا۔ اس کے لیے پیونگ یانگ کا معیاری وقت جنوبی کوریا اور جاپان کے معیاری وقت سے آدھ گھنٹہ پیچھے کر دیا گیا تھا۔
تین سال قبل جب شمالی کوریا نے اپنے معیاری وقت کو آدھ گھنٹہ پیچھے کیا تھا، تو اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ 1910ء سے لے کر 1945ء تک، جب جاپان جزیرہ نما کوریا پر قابض تھا، تو ٹوکیو نے کوریا کا معیاری وقت بھی اپنی سہولت کے لیے جاپان کے معیاری وقت کے برابر کر دیا تھا۔ 2015ء میں ’پیونگ یانگ ٹائم‘ متعارف کراتے ہوئے شمالی کوریا کی طرف سے کہا گیا تھا کہ اس تبدیلی کا مقصد کوریا پر جاپانی قبضے کی میراث کا خاتمہ تھا۔
اب لیکن اپنا معیاری وقت دوبارہ آدھ گھنٹہ آگے کرتے ہوئے شمالی کوریا ایک بار پھر اسی بین الاقوامی ٹائم زون میں واپس آ گیا ہے، جو جنوبی کوریا اور جاپان کا یکساں ٹائم زون بھی ہے۔
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
شمالی کوریائی رہنما کے بقول ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔ اپنے اولین دورہ جنوبی کوریا کے دوران انہوں نے کہا کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی خاطر بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
تصویر: Reuters
پہلا قدم
کم جونگ اُن پہلے شمالی کوریائی رہنما ہیں، جنہوں نے کوریائی جنگ میں فائر بندی کے 65 برس بعد جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ کم نے کہا کہ جنوبی کوریا داخل ہوتے ہی وہ ’جذبات کی ایک بڑی لہر میں بہہ نکلے‘۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن سرحد پر کم جونگ اُن کا استقبال کرنے کو موجود تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی سمٹ کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: KOCIS
نئے تعلقات کے آغاز کا عہد
کیمونسٹ رہنما کم جون اُن نے کہا کہ وہ ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ سن انیس سو ترپن میں کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا ہے۔ جب کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کی سرحد عبور کی تو جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن نے ان کا استقبال کیا۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
تاریخی مصافحہ
جنوبی کوریا داخل ہونے پر اُن نے اِن سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر کم نے کہا کہ یہ مصافحہ خطے میں قیام امن کی طرف ’افتتاحی قدم‘ ہے۔ کم جونگ اُن کی طرف سے جوہری اور میزائل پروگرام منجمد کرنے کے اعلان کے بعد جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔ چین اور امریکا نے بھی دونوں کوریائی ممالک کے رہنماؤں کے مابین اس براہ راست ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
شمالی کوریائی وفد
جنوبی کوریا کا دورہ کرنے والے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ان کی ہمشیرہ اور قریبی مشیر کم یو جونگ کے علاوہ کمیونسٹ کوریا کے بین الکوریائی تعلقات کے شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریائی صدر کے ہمراہ ان کے ملک کے انٹیلیجنس سربراہ اور چیف آف سٹاف بھی تھے۔
تصویر: KOCIS
’ہم ایک قوم ہیں‘
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن کے ساتھ سمٹ میں کہا، ’’اس میں کوئی منطق نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں۔ ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ چند ماہ قبل کم جونگ اُن کی طرف سے ایسے کلمات سننے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ جنوبی کوریا میں کئی حلقے اس سمٹ پر محتاط انداز سے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔
تصویر: KOCIS
ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ
اس سمٹ کے پہلے دور میں دونوں لیڈروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے علاوہ قیام امن کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریائی صدر مُون جے اِن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانے کے موضوع پر انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے تبادلہ خیال کیا۔
تصویر: KOCIS
عالمی برداری خوش
1953ء میں کوریائی جنگ میں فائر بندی کے بعد سے مجموعی طور پر یہ تیسرا موقع ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی آپس میں کوئی ملاقات ہوئی۔ جاپان، چین اور روس نے اس ملاقات کو خطے میں قیام امن کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters
مذاکرات جاری رہیں گے
اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک تمام شعبوں میں مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور دونوں ریاستوں کے مابین سفری پابندیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، کم
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا۔ اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کے لیے پیونگ یانگ حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک اس تناظر میں جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ تاہم اس بارے میں تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
تصویر: KOCIS
مون جے اِن شمالی کوریا جائیں گے
اس سمٹ کے بعد جنوبی کوریائی صدر کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ صدر مون جے اِن شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔ ممکنہ طور پر وہ رواں برس موسم خزاں میں یہ دورہ کریں گے، جہاں وہ شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ مون جے اِن کے اس آئندہ جوابی دورے کو بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Alexander Freund
مقامی آبادی خوش
کم جونگ اُن کی جنوبی کوریا آمد پر کوریائی باشندوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کم کو دیکھا اور براہ راست سنا۔ اس موقع پر کئی افراد نے خصوصی لباس بھی زیب تن کر رکھا تھا۔ دونوں سربراہان نے جنوبی کوریائی علاقے میں واقع سرحدی گاؤں پان مُون جوم میں قائم ’پیس ہاؤس‘ یا ’ایوان امن‘ میں ملاقات کی۔
تصویر: DW/A. Freund
11 تصاویر1 | 11
’پیونگ یانگ ٹائم‘ اس وقت متعارف کرایا گیا تھا، جب شمالی کوریا کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کی وجہ سے پیونگ یانگ کی سیول اور امریکا کے ساتھ کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی تھی۔ اب اسی گزشتہ فیصلے کو اس لیے منسوخ کیا گیا ہے کہ شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن سے اپریل کے آخر میں ایک تاریخی ملاقات کر چکے ہیں اور اُن کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی عنقریب ہی ایک ملاقات ہونے والی ہے۔
اس سہ فریقی مفاہمتی پیش رفت کے ساتھ عشروں سے بہت زیادہ کھچاؤ کے شکار جزیرہ نما کوریا پر قیام امن کی امیدیں بندھنے لگی ہیں اور یہ امید بھی ہے کہ کم جونگ اُن اور امریکی صدر ٹرمپ کی تاریخی ملاقات کے نتیجے میں مستقبل قریب میں کوریائی جنگ کے باقاعدہ خاتمے کو ممکن بناتے ہوئے دونوں کوریاؤں کے مابین ایک امن معاہدہ بھی طے پا سکتا ہے۔ اب تک دونوں کوریا عسکری حوالے سے فائر بندی کی حالت میں ہیں۔
م م / ع ح ق / اے پی
ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کارٹونسٹوں کے ’پسندیدہ شکار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کِم جونگ اُن ایک دوسرے کو جوہری حملوں کی دھمکیاں دیتے ہوئے خوف اور دہشت پھیلا رہے ہیں لیکن کارٹونسٹ ان دونوں شخصیات کے مضحکہ خیز پہلو سامنے لا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Gado
’میرا ایٹمی بٹن تم سے بھی بڑا ہے‘
بالکل بچوں کی طرح لڑتے ہوئے شمالی کوریا کے رہنما نے کہا کہ ایٹمی ہتھیار چلانے والا بٹن ان کی میز پر لگا ہوا ہے۔ جواب میں ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پاس بھی ایک ایٹمی بٹن ہے اور وہ تمہارے بٹن سے بڑا ہے‘۔
تصویر: Harm Bengen
ہیئر اسٹائل کی لڑائی
دونوں رہنماؤں کے ہیئر اسٹائل منفرد ہیں اور اگر ایک راکٹ پر سنہری اور دوسرے پر سیاہ بال لگائے جائیں تو کسی کو بھی یہ جاننے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی کہ ان دونوں راکٹوں سے مراد کون سی شخصیات ہیں۔
تصویر: DW/S. Elkin
اگر ملاقات ہو
اگر دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہو تو سب سے پہلے یہ ایک دوسرے سے یہی پوچھیں گے، ’’تمہارا دماغ تو صحیح کام کر رہا ہے نا؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟‘‘
تصویر: A. B. Aminu
ماحول کو بدبودار بناتے ہوئے
اس کارٹونسٹ کی نظر میں یہ دونوں رہنما کسی اسکول کے ان لڑکوں جیسے ہیں، جو ماحول کو بدبودار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے شرط لگا لیتے ہیں۔