غائلانی کی پہلی پیشی، امریکہ کی مشکلات میں اضافہ
7 اکتوبر 2010نیویارک کی عدالت میں بدھ کو ہوئی اس سماعت کے موقع پر جج کے اس فیصلے کو استغاثہ کے لئے ایک دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما گوانتانامو بے کے حراستی کیمپ کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں قید مزید افراد کو سویلین عدالتوں میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے غائلانی کے مقدمے کو تجرباتی قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم مقدمے کے آغاز پر ہی اس طرح کے حالات سے اس حوالےسے پیش رفت مشکل ہو سکتی ہے۔
سماعت کے موقع پر غائلانی نے افریقہ میں 1998ء میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں کے لئے القاعدہ کی معاونت کرنے کے الزام سے بھی انکار کیا۔ ان حملوں میں 224 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سماعت کے دوران جج لیوس کاپلان نے گواہ حسین ابیبے کا بیان لینے سے انکار کر دیا۔ ابیبے یہ گواہی دینے والا تھا کہ کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بم حملوں کے لئے بارُودی مواد غائلانی نے اسی سے خریدا تھا۔
استغاثہ نے ابیبے کو اس مقدمے میں انتہائی اہم گواہ قرار دیا تھا۔ تاہم کاپلان نے کہا کہ وہ ابیبے کو گواہ کے طور پر خارج کر رہے ہیں۔ جج نے کہا کہ اس کی گواہی غائلانی کے انہی بیانات پر مبنی ہو گی، جو اس نے سی آئی اے کو اس وقت دیے، جب وہ زیرحراست تھا۔
کاپلان نے کہا، ’امریکی حکام غائلانی کے بیانات کے نتیجے میں ہی ابیبے تک پہنچے۔‘
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غائلانی کی جانب سے عدالت میں پیش ہونے والے ایک وکیل نے اس فیصلے کو امریکی قانون کی فتح قرا دیا ہے۔
مقدمے کی سماعت 12اکتوبر تک کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے، جس سے استغاثہ کو اپیل کرنے کے لئے وقت مل گیا ہے۔ یہ سماعت قبل ازیں پیر کے لئے طے تھی، تاہم اسے بدھ تک کے لئے ملتوی کر دیا گیا تھا۔
غائلانی پر ایک ٹرک اور دھماکہ خیز مواد خریدنے کا الزام ہے، جو مبینہ طورپر 1998ء میں دارالسلام میں امریکی سفارت خانے پر حملے میں استعمال ہوا جبکہ بتایا جاتا ہے کہ اسی دھماکہ خیز مواد کی مدد سے دوسرا حملہ نیروبی کے سفارت خانے پر ہوا تھا۔ اس پر اسامہ بن لادن کے معاون ہونے کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ اسے 2004ء میں پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ الزامات ثابت ہوئے تو غائلانی کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف بلوچ