ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے عزم ظاہر کیا ہے کہ گزشتہ برس ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کے ذمہ داروں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ وہ ملک میں سزائے موت بحال کریں گے۔
اشتہار
رجب طیب ایردوآن گزشتہ برس 15 جولائی کو ہونے والی ناکام فوجی بغاوت کو ایک برس مکمل ہونے پر استنبول کے باسفورس پُل پر عوام سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر ہزارہا ترک شہری وہاں موجود تھے اور ترک پرچم لہرا رہے تھے۔ گزشتہ برس کی فوجی بغاوت کا راستہ روکتے ہوئے قریب 250 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ایردوآن کا کہنا تھا، ’’ان باغیوں کو ہمیشہ نفرت سے یاد رکھا جائے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ترکی ’’ایسے لوگوں کا سر کچلنے سے گریز نہیں کرے گا جنہوں نے غداری کی۔‘‘
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ایردوآن نے اس موقع پر ’دہشت گردوں‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ ’’ان دہشت گردوں کی گردن پہلے اڑائیں گے۔‘‘ مذہبی حوالہ جات سے بھرپور ایردوآن کے اس خطاب پر اپوزیشن کی طرف سے شدید تنقید کی گئی ہے۔
ایردوآن کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن افراد کو ناکام فوجی بغاوت سے تعلق کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے انہیں عدالت میں پیشی کے موقع پر اُسی طرز کا خصوصی لباس پہنایا جائے گا جو گوانتاناموبے کو قیدیوں کو پہنایا جاتا رہا ہے۔
استنبول کے باسفورس پُل پر یہ تقریب منعقد کرنے کا مقصد گزشتہ برس کی فوجی بغاوت کا راستہ روکتے ہوئے مارے جانے والے ترک شہریوں کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا۔ باسفورس کا یہ پُل 2016ء کی بغاوت کا ایک اہم میدان جنگ تھا۔ اسی باعث گزشتہ برس ہی اس پُل کا نام بدل کر اسے ’’شہدا کا پل‘‘ قرار دے دیا گیا تھا۔
’ترکی میں مارشل لاء‘ عوام راستے میں آ گئے
ترک فوج کے ایک گروپ کی طرف سے ملک کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی خبریں موصول ہو رہی ہیں جبکہ صدر ایردوآن نے نامعلوم مقام سے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بغاوت کی کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
عوام سڑکوں پر
ترکی میں فوج کے ایک گروہ کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے دوران ہی عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Y. Okur
لوگ ٹینکوں پر چڑھ دوڑے
خبر رساں اداروں کی طرف سے جاری کردہ تصاویر کے مطابق انقرہ میں فوجی بغاوت کے مخالفین عوام نے ٹینکوں پر حملہ کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
عوام میں غصہ
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہفتے کی علی الصبح ہی انقرہ میں فوجی بغاوت کے خلاف لوگوں کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر آ گئی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
کچھ لوگ خوش بھی
خبر رساں اداروں کے مطابق جہاں لوگ اس فوجی بغاوت کی کوشش کے خلاف ہیں، وہیں کچھ لوگ اس کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
ایردوآن کے حامی مظاہرین
ترک صدر ایردوآن نے موبائل فون سے فیس ٹائم کے ذریعے سی این این ترک نیوز ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے عوام کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بغاوت کی یہ کوشش مختصر وقت میں ہی ناکام بنا دی جائے گی۔
تصویر: picture alliance/abaca/AA
کرفیو کا نافذ
ترکی کے سرکاری براڈ کاسٹر کی طرف سے نشر کیے گئے ایک بیان کے مطابق فوج نے ملک کا نظام سنبھال لیا ہے۔ بغاوت کرنے والے فوجی گروہ نے جمعے کی رات ہی اس نشریاتی ادارے کو اپنے قابو میں کر لیا تھا۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/Saltanat
ٹینک گشت کرتے ہوئے
انقرہ کی سڑکوں پر رات بھر ٹینک گشت کرتے رہے۔
تصویر: Getty Images/D. Karadeniz
جنگی جہاز اڑتے ہوئے
استنبول میں جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات جیٹ طیارے نیچی پرواز کرتے رہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/AA
ہیلی کاپٹرز سے نگرانی
بغاوت کرنے والے فوجی گروہ نے کہا ہے کہ ملک میں امن کی خاطر سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ رات کے وقت ایک ہیلی کاپٹر پرواز کرتے ہوئے۔
تصویر: Getty Images/K. Cucel
عالمی برداری کی مذمت
ترکی کی موجودہ صورتحال پر عالمی برداری نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک کا کہنا کہ ترکی کی جمہوری حکومت کا ساتھ دیا جائے گا۔
تصویر: Getty Images/D. Karadeniz
ترک صدر محفوظ ہیں
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ عوام سڑکوں پر نکل کر احتجاج کریں۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ ’فوج کے اندر ایک چھوٹے سے ٹولے‘ کی طرف سے کی گئی یہ بغاوت ناکام بنا دی جائے گی۔
تصویر: Reuters/K. Gurbuz
11 تصاویر1 | 11
بعد ازاں ایردوآن نے دارالحکومت انقرہ میں بھی بغاوت کا راستہ روکتے ہوئے اپنی جان کی قربانی پیش کرنے والوں کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کی۔ تاہم ملکی اپوزیشن کے ارکان پارلیمان نے اس تقریب میں شرکت سے احتراز کیا۔ انقرہ میں اپنے خطاب کے دوران ایردوآن کا کہنا تھا کہ اگر ان کے سامنے سزائے موت کی بحالی کا قانونی بِل پیش کیا جاتا ہے تو وہ اس پر دستخط کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسے کسی بِل پر پارلیمان میں بحث کی جاتی ہے اور اس پر اتفاق رائے ہو جاتا ہے تو انہیں بھی اس پر دستخط کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہو گی۔
ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک پارلیمان کے اندرونی مناظر