1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غداری کی دو لکیریں اور تاریخ کی درست سمت

7 اپریل 2022

پاکستان میں دو طرح کے لوگ ہمیشہ سے پائے گئے ہیں۔ ایک محب وطن اور دوسرے غدارانِ وطن۔ آپ 1948ء سے سال 2022ء تک کی وہ فہرست نکال لیں، جس میں محب وطن اور غدار رہنماوں کے نام درج ہیں۔

تصویر: Privat

پھر محب وطن رہنماؤں کی قربانیاں دیکھیں اور غداروں کے جرائم دیکھیں۔ محب وطن رہنماؤں کی قربانیوں میں جمہوریت دشمنی اور آئین بیزاری ملے گی۔ غداروں کے جرائم میں جمہوریت پسندی اور آئین مزاجی ملے گی۔

آپ ایسے رہنماؤں کی فہرست بھی مرتب کرسکتے ہیں، جو ایک زمانے میں محب وطن تھے اور دوسرے زمانے میں غدار ہو گئے۔ فہرست سامنے رکھ کر خود سے سوال کریں کہ جب یہ محب وطن تھے تو کیوں تھے، غدار ہوئے تو کیوں ہوئے؟ اس سوال کا جواب لینے کے لیے دونوں زمانوں کے واقعات پر ایک نظر ڈالیں۔ حب الوطنی والے زمانے میں وہ آپ کو آئین کے خلاف مہم جوئی کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ غداری والے زمانے میں وہ آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔

قومی مفاد کہہ لیں یا ملکی مفاد کہہ لیں، یہ دراصل عوامی مفاد ہی ہوتا ہے۔ عوامی مفاد کا تعین عوام کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ معاشرے میں جتنا تنوع ہوتا ہے اُتنا ہی مفادات میں ٹکراؤ کا امکان ہوتا۔ مفادات کا ٹکراؤ ہو تو طاقتور طبقہ غالب آتا ہے اور کمزور طبقوں کا مفاد مارا جاتا ہے۔ تصادم کے امکان کو ختم کرنے کے لیے اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے آئین جنم لیتا ہے۔ آئین دراصل اجتماعی شعور سے جنم لینے والا پلیٹ فارم ہوتا ہے، جس کی تعمیر میں ہر طبقے کی مشاورت شامل ہوتی ہے۔ یہی پلیٹ فارم ہوتا ہے جسے آپ ملک کہتے ہیں یا ریاست کہتے ہیں۔ اس کی ذاتی اہمیت عوام سے اور عوامی مفاد سے زیادہ نہیں ہوتی۔

ریاست کی حیثیت عوامی مفاد سے بڑھ جائے تو سمجھ جائیں کہ ریاست پر اشرافیہ قابض ہو چکی ہے۔ اشرافیہ کے مفادات عوام کے مفادات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئین کو وہ اپنے مفادات کے راستے میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ اس کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ وہ آئین کے مقابلے میں ایک بیانیہ مرتب کرے اور پھر اسے تقدس کا ایک جامہ پہنا دے۔ تقدس ہی ہے جو عام لوگوں کے لیے بیانیے کو آئین سے زیادہ خوش نما بناتا ہے۔

آئین یقین ہے اور بیانیہ گمان ہے۔ آئین بندوبست کرتا ہے اور بیانیہ خواب دکھاتا ہے۔ بیانیے میں انسانی حقوق اور بنیادی انسانی ضرورتوں کا سوال نہیں ہوتا۔ اس میں حب الوطنی، مذہب پسندی، غیرت، شجاعت اور شہادت جیسے ماورائی حوالے ہوتے ہیں، جنہیں آپ دیکھ سکتے ہیں نہ چھو سکتے ہیں۔ آئین میں بنیادی سوال ہی انسانی حقوق اور بنیادی ضرورتوں کا ہوتا ہے۔ اس میں روٹی، کپڑے، تعلیم، صحت، روزگار، امن، انصاف اور خوش حالی جیسے منطقی حوالے ہوتے ہیں، جنہیں آپ دیکھ بھی سکتے ہیں اور چھو بھی سکتے ہیں۔ پاکستان میں ہمیشہ سے مقابلہ بیانیے اور آئین کے بیچ ہی چلا آرہا ہے۔ 

اس بات سے تو آپ بھی اتفاق کریں گے کہ اِس وقت سیاست کے اس پورے بازار میں تنہا ایک شخص اگر محب وطن ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ ایک محب وطن رہنما آئین کے ساتھ کھڑا ہو جائے، یہ کیسے ممکن ہے۔ چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اول و آخر بیانیے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ بطور وزیر اعظم انہوں نے اپنی اُس کارکردگی کا حساب دینا ہے، جس کا تعلق بنیادی انسانی ضرورتوں کے ساتھ ہے۔

مگر جو چیزیں انہوں نے عوام کے سامنے رکھی ہیں وہ امریکہ مردہ باد، اسلام زندہ باد، ریاستِ مدینہ، فلسفہِ اقبال، روحانیت، فحاشی، اسلاموفوبیا اور امر بالمعروف وغیرہ ہیں۔ وقت نے جب تک انہیں آزمایا نہیں تھا انہوں نے گزارا کیا۔ آزمائش کی گھڑی آئی تو آئین کی دستاویز کو کوڑے دان میں پھینکنے کے لیے انہوں نے ایک منٹ سے زیادہ کا وقت نہیں لیا۔

خان صاحب کے غیر سیاسی، غیر جمہوری اور غیر آئینی مزاج کو آپ  اُن کی زندگی کے ایک اہم واقعے کی روشنی میں زیادہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ جنرل مشرف نے 1999ء میں منتخب حکومت کا تختہ الٹا تو خان صاحب نے مسرت کا بھرپور اظہار کیا۔ ریفرنڈم ہوا تو خان صاحب پورے اعتماد کے ساتھ مشرف کو ووٹ دینے نکلے۔ سال 2002ء کا انتخابی بندوبست ہوا تو خان صاحب توبہ کر کے ایک طرف ہو گئے۔

خان صاحب نے مشرف کو ویلکم کیا، اسے رہنے دیں۔ مشرف کو ووٹ دیا، اسے بھی رہنے دیں۔ بعد ازاں انہوں نے توبہ کر لی، اسے بھی رہنے دیں۔ غور صرف اس بات پر کریں کہ وہ آج بھی اپنی توبہ کی وجہ کیا بتاتے ہیں۔ کیا اس لیے توبہ کی کہ منتخب حکومت کا دھڑن تختہ غیر جمہوری تھا؟ نہیں۔ کیا اس لیے کی کہ مشرف کا منصب غیر آئینی تھا؟ نہیں۔ کیا اس لیے کی کہ مشرف نے عدالتوں کا گھیراو کرنے کے لیے پی سی او نافذ کیا؟ نہیں۔ پھر کیوں کی؟ فرماتے ہیں، ''مشرف نے کہا تھا کہ میں احتساب کر کے سیاست دانوں کو سزائیں دوں گا۔ جب مجھے اندازہ ہوا کہ وہ سزائیں نہیں دے رہے تو میں نے بھی حمایت واپس لے لی۔‘‘

اگر معاملات کو دیکھنے کا انداز اس قدر غیر سیاسی اور غیر آئینی ہو تو اس کے سادے سے دو مطلب نکلتے ہیں۔ ایک، آپ طبقات کی شمولیت پر یقین نہیں رکھتے۔ دوسرے، آپ مشاورت پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر ان دو چیزوں پر آپ یقین نہیں رکھتے تو اس کا سیدھا سا مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپ ملکی مسائل کو بڑھاوا تو دے سکتے ہیں، کم نہیں کر سکتے۔

شمولیت اور مشاورت پر یقین نہ رکھنے والی بات ایک ہوائی تجزیہ نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، جس کی عملی مثالیں بچشمِ سر دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثلا، حکومت بنانے کے لیے خان صاحب کے حصے میں وہی اتحادی آئے، جو جنرل مشرف نے اپنے لیے تخلیق کیے تھے۔ کابینہ تشکیل دیتے وقت انہوں نے منتخب اراکین کو یکسر نظر انداز کیا۔ کاروبارِ مملکت ایسے افراد کو سونپا، جن میں سے آدھوں کا حلقہ نہیں تھا، آدھوں کا سرے سے پاکستان میں قیام ہی نہیں تھا۔ اس سب پر مستزاد یہ کہ اٹھارہویں ترمیم کے خلاف مہم چلائی گئی۔ اٹھارہویں ترمیم کی مخالفت ہو یا پاکستان میں صدارتی نظام کی بات، یہ سب عوامی شمولیت اور مشاورت سے انکار کے سوا کیا ہے؟

اس پورے منظرنامے کو دیکھنے کے بعد اب ایک نظر بغاوت کی اُن دو لکیروں پر ڈالیں، جو عدمِ اعتماد کی تحریک کے بعد سیاست کے میدان میں کھنچی ہیں۔ ایک لکیر خان صاحب نے کھینچی ہے، جو یہ کہتی ہے کہ اپوزیشن ایک امریکی سازش کا حصہ بنے ہیں، چنانچہ یہ ملک سے بغاوت ہے۔ دوسری لکیر اپوزیشن نے کھینچی ہے، جو یہ کہتی ہے کہ حکومت نے آئین توڑا ہے، یہ ملک سے بغاوت ہے۔

یہ لکیریں پہلی بار نہیں کھنچی۔ یہ لکیریں تب بھی کھنچی تھیں، جب جنرل ایوب خان، یحییٰ خان، ضیا اور مشرف نے آئین توڑا تھا۔ آئین کا سوال اٹھاکر اِن کے مقابلے میں آنے والی فاطمہ جناح، شیخ مجیب، ذوالفقار علی بھٹو، صمد خان، خیر بخش مری، بے نظیر بھٹو، عطااللہ مینگل، ولی خان اور نواز شریف غدار تھے۔ جس دن یہ لکیریں کھنچی تھیں اس دن کچھ لوگ سازشوں کی تیز آندھیوں کی وجہ سے سمجھ نہیں پائے تھے کہ کہاں کھڑے ہونا ہے۔ وہ خلوصِ نیت کے ساتھ ''پاکستان کی سلامتی‘‘ کے لیے محب وطن قیادت کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ آج جب وہ تاریخ کے جھروکے سے جھانک کر پیچھے دیکھتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ غلط سمت میں کھڑے تھے۔

آج کی تاریخ میں غداری کی ایک لکیر بیانیے سے گزر کر آ رہی ہے اور دوسری لکیر آئین کے اندر سے ہوتی ہوئی جا رہی ہے۔ تقدس کی ہوائیں پھر سے بیانیے کے حق میں ہوں گی مگر تاریخ کا سبق یہ ہے کہ چپ چاپ آئین کے ساتھ کھڑے ہوکر وقت گزرنے کا انتظار کیا جائے۔ جب آندھیاں تھم جائیں گی اور دھول بیٹھ جائے گی تو تاریخ کے جھروکے سے جھانک کر پیچھے دیکھیے گا۔ آپ خود کو ٹھیک سمت میں کھڑا ہوا پائیں گے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں