غذائی عدم توازن: پکاتی عورت ہے، مگر کھاتا کون ہے؟
15 نومبر 2025
کیا غذا کی تقسیم بھی ایک صنفی مسئلہ ہے اور کچن پالیٹکس میں مرد کیوں جیت جاتا ہے؟
ملتان کے قریب ایک گاؤں میں بلقیس روزانہ منہ اندھیرے اٹھ کر ناشتہ تیار کرنے لگتی ہیں۔ پہلے شوہر اور پھر بچے اپنی پسند کے مطابق پراٹھے، مکھن، دہی اور انڈے کھاتے ہیں۔ جب تک بلقیس کی باری آتی ہے، چائے کا رنگ سیاہ اور پراٹھے کے ٹکڑوں پر گھی جم چکا ہوتا ہے۔
بلقیس لاپرواہ نہیں ہیں، بس ایک معمول ہے جو لاکھوں دیگر خواتین کی طرح انہیں بھی اپنی والدہ سے وراثت میں ملا ہے: سب سے پہلے اٹھنا، سب سے آخر میں سونا، دن کا بیشتر وقت کچن میں گزارنا اور ہمیشہ باقی بچ جانے والے کھانے پر قناعت کرنا۔
روزمرہ استعمال کی اشیا کی مہنگائی اور خوراک کا بحران خواتین کے لیے نقصان دہ
کب کیا پکے گا، اس کا فیصلہ بلقیس کے بچے اور شوہر کرتے ہیں۔ کون کتنا اور کب کھائے گا، اس کا فیصلہ سماجی روایت قدیم زمانوں سے کر چکی ہیں۔
مگر گھریلو عورت خود کھانا سب سے آخر میں کیوں کھاتی ہے؟ کیا دوسرے گھر والوں کے بچے ہوئے ٹکڑوں پر قناعت کرنا اس کا اپنا انتخاب ہے؟ کیا اس کے اثرات صرف اس کی سماجی حیثیت تک محدود رہتے ہیں، یا پھر جسم بھی اس ناانصافی کا بوجھ اٹھاتا ہے؟
عورت کا جسم: غذائی عدم توازن کا پہلا نشانہ
غذائی امور کی ماہر اور پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر فروا یونس سمجھتی ہیں کہ غذائی عدم توازن کا پہلا نشانہ عورت کا جسم بنتا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''جب خاندان کے مرد اور بچے پہلے کھاتے ہیں اور عورت سب سے آخر میں، تو اسے اکثر وہی کھانا ملتا ہے جو باقی بچتا ہے، یعنی کم غذائیت والا اور ناکافی۔ فولاد، کیلشیم اور پروٹین کی مسلسل کمی عورت کے جسم کو اندر سے کمزور کر دیتی ہے۔ یہ کمی اس کے خون کی مقدار، ہڈیوں کی مضبوطی اور توانائی کے نظام کو بھی متاثر کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزمرہ کے معمولات بھی اسے تھکا دینے والے محسوس ہوتے ہیں۔"
بہت سے تحقیقی مطالعے پاکستانی خواتین میں غذائیت کی کمی اور اس کے اثرات واضح کرتے ہیں۔
پاکستان میں ہر چھ میں سے ایک لڑکی کی کم عمری میں شادی، یونیسیف
قومی غذائی سروے 2018 کے مطابق پاکستان میں 15 سے 49 برس تک کی عمر کی خواتین میں خون کی کمی یا انیمیا کی شرح تقریباً 42 فیصد ہے جبکہ اسی عمر کی 34 فیصد خواتین آئرن کی کمی کا شکار بھی ہیں۔
یونیسیف کی رپورٹ 'پاکستان میں ماؤں کی غذائیت کی حکمت عملی‘ کے مطابق صرف 27 فیصد پاکستانی خواتین ہی اپنی کم از کم غذائی تنوع کی ضروریات پورا کر پاتی ہیں۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق اس شعبے کے ڈائریکٹر جنرل عاصم جاوید کا کہنا ہے، ”پاکستان میں 56 فیصد خواتین آئرن کی کمی کا شکار ہیں اور 73 فیصد کو وٹامن ڈی اور 39 فیصد کو وٹامن اے کی کمی کا سامنا ہے۔ تقریباﹰ 28 فیصد خواتین کا وزن ان کی عمر کے لحاظ سے کم جبکہ تقریباً 16 فیصد خواتین کا وزن ان کی عمر کے لحاظ سے زیادہ ہے۔ بطور بہن، ماں، بیوی اور بیٹی اپنی ذمہ داریاں پورا کرتے ہوئے عورتیں اپنی صحت کو مسلسل نظرانداز کر رہی ہوتی ہیں۔‘‘
پاکستان میں ’باون فیصد‘ خواتین پی سی او ایس کا شکار، بانجھ پن میں اضافہ
غذائی امور کے ماہرین کے مطابق خواتین میں آئرن اور دیگر غذائی کمیوں کا تعلق صرف غربت یا وسائل کی کمی سے نہیں، بلکہ ایسے سماجی رویوں سے بھی ہے جو مردوں کو زیادہ طاقتور اور زیادہ حق دار سمجھتے ہیں۔
غذا کی تقسیم میں صنفی امتیاز کہاں سے آیا؟
پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر اوکاڑہ کی دیہی خواتین کی صحت اور غذائیت کے حوالے سے گزشتہ برس شائع ہونے والی ایک تحقیق 'دیہی خواتین میں غذائی استعمال اور غذائی عدم تحفظ سے متعلق صنفی ناہمواری: صورتحال اور وجوہات‘ کے مطابق، ''تقریباً 43 فیصد خواتین نے اعتراف کیا کہ ان کے گھروں میں مردوں کو زیادہ اور بہتر معیار کا کھانا ملتا ہے، جب کہ خواتین کو اس میں برابری حاصل نہیں ہوتی۔"
مزید یہ کہ ”56 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دی جاتی ہے اور تقریباً 62 فیصد شرکاء کے مطابق نوجوان خواتین کم غذائیت والے کھانوں کے باعث صحت کے مسائل کا شکار ہیں۔"
اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا، ''صنفی عدم مساوات اور گھریلو آمدنی وہ بنیادی عوامل ہیں، جو دیہی خواتین کی غذائی صورتحال پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔"
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ارتقائی علوم کے ماہر زیف سید نے کہا، ''گوشت، دودھ، انڈے اور دیگر پروٹین سے بھرپور غذائیں اکثر مردوں کے لیے مخصوص رہتی ہیں، جبکہ خواتین کو کم مقدار میں یا سادہ خوراک دی جاتی ہے۔ اس روایت کی بنیاد یہ خیال ہے کہ مرد زیادہ محنت کرتے ہیں، اس لیے انہیں زیادہ توانائی اور غذائیت کی ضرورت ہے۔ عورت کو 'قربانی‘ یا 'بچت‘ کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور یہ تصور مذہبی یا ثقافتی جواز کے ساتھ مستحکم کیا جاتا ہے۔"
چوالیس فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار، حل کس کے پاس؟
زیف سید کے مطابق، ”ارتقائی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ترجیح انسانی معاشروں میں زندہ رہنے اور تولیدی کامیابی سے جڑی ہو سکتی ہے۔ روایتی معاشرت میں مرد کی جسمانی طاقت اور توانائی کو نسل کی حفاظت اور وسائل حاصل کرنے کے لیے اہم سمجھا گیا، جس کی بنیاد پر مرد کو زیادہ غذائی اجزاء فراہم کرنا ایک منطقی قدم سمجھا جاتا رہا۔ مرد کا کردار ایک کفیل کا تھا، شکار یا بعد میں زراعت کے ذریعے خوراک کا بندوبست کرنا اس کی ذمہ داری رہی۔ یہیں سے غذا میں صنفی عدم توازن ہماری روایات کا حصہ بن گیا۔"
فیصلہ فیصلہ سازی کا حق: پلیٹ کس کی مرضی سے بھرتی ہے؟
پاکستانی گھروں میں کچن کو عموماً خواتین کا دائرہ اثر سمجھا جاتا ہے، مگر کیا وہ اس دائرے میں فیصلہ ساز بھی ہوتی ہیں؟
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کی کارکن ڈاکٹر فاخرہ نورین نے کہا، ''عورت کا خود کو پیچھے رکھنا، دوسروں کو پہلے کھلانا اور اپنی بھوک کو ثانوی سمجھنا، معاشرے میں 'ممتا‘، 'قناعت‘ اور 'صبر و شکر‘ کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ دراصل عورت کا آزادانہ انتخاب نہیں ہوتا بلکہ پدرشاہی معاشرت میں پیدا کردہ ذہن سازی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ بچپن سے ہی بیٹی دیکھتی ہے کہ ماں سب کو کھلانے کے بعد خود آخر میں کھاتی ہے۔ یوں اسے سکھا دیا جاتا ہے کہ اپنی خواہشات قربان کرنا عورت ہونے کا حصہ ہے۔ یہ اس کا انتخاب نہیں، معاشرے کا دیا ہوا بوجھ ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔ بیٹیاں اپنی ماؤں کی خاموش بھوک کو دہراتی رہتی ہیں۔"
متوازن خوراک: عالمی ادارے کی رپورٹ پر پاکستان میں تشویش
سماجی دانشور سجاد اظہر کے مطابق زیادہ تر گھروں میں خواتین خود کھانا پکاتی ہیں، مگر خوراک کی خریداری اور تقسیم کا فیصلہ مرد کرتے ہیں۔ عورت فیصلہ ساز نہیں ہوتی کیوں کہ وہ معاشی طور پر اپنے خاندان کے مردوں پر انحصار کر رہی ہوتی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’پاکستانی معاشرے میں خواتین کی مالیاتی کمزوری کا تعلق صدیوں سے چلے آ اس روایتی نظام سے ہے، جس میں گھر اور معاشرت کے ہر بڑے فیصلے کا مالک مرد ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے کچن میں بھی فیصلہ کرنے کا حق عورت کے پاس نہیں۔ وہ محنت کرتی ہے، کھانا پکاتی ہے، مگر یہ طے نہیں کرتی کہ کون پہلے کھائے گا، کتنا کھائے گا اور کیا کھائے گا۔ یہ فیصلہ مرد کرتا ہے کیونکہ گھر کی معیشت اسی کے گرد گھومتی ہے، وہ کماتا ہے، اس لیے اس کی مرضی چلتی ہے۔ عورت کی معاشی خود مختاری اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر وہ کبھی فیصلہ ساز نہیں بن سکتی۔‘‘
ادارت: مقبول ملک