1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غربت سے مجبور افغان شہری بیٹیوں کو فروخت کرنے پر مجبور

18 نومبر 2021

افغانستان کی موجودہ معاشی حالت نے ملک کے مستقبل پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ زوال شدہ معیشت کے ساتھ ساتھ اب قحط سالی نے عام افغان شہریوں کی زندگیوں کو انتہائی مشکلات اور غیر معمولی پریشانیوں سے دوچار کر دیا ہے۔

Albanien Tirana | Ankunft Afghanischer Flüchtlinge am Flughafen
تصویر: Press Office/Albania Ministry of Foreign Affairs

رواں برس اگست میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والے طالبان حکمرانوں کو ابھی بھی بین الاقوامی شناخت درکار ہے اور وہ اس وقت ملک کی مجموعی پریشان کن صورت حال کو مناسب انداز میں سنبھالنے کی کوشش میں ہیں۔

طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کا امریکی کانگریس کے نام کھلا خط

افغانستان کو درپیش سنگین مسائل

اس ملک کو سرِدست کورونا وائرس کی بیماری کووڈ انیس کی مسلسل پھیلتی وبا کا سامنا ہے۔ یہ ملک خوراک کے بحران سے گزر رہا ہے۔ سردیوں کے موسم کی وجہ سے بے شمار خاندانوں کو زندگی اور موت کا مسئلہ درپیش ہے۔

غربت اور خشک سالی کی وجہ سے کئی افغان صوبوں کے افراد داخلی بے گھری کا شکار ہو چکے ہیںتصویر: Saifurahman Safi/Xinhua/picture alliance

ان مسائل کا تذکرہ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے اپنی ایک رپورٹ میں بھی کیا ہے۔ یونیسیف ہی دنیا کے غریب اور کم ترقی یافتہ ممالک کے بچوں کی نشو و نما اور ترقی کے لیے انسانی بنیاد پر امداد فراہم کرتی ہے۔ سن 2020 کی اس ادارے کی رپورٹ میں بیان کیا گیا تھا کہ افغانستان میں زیادہ تر آبادی اتنی غریب ہو چکی ہے کہ وہ صاف پینے کے پانی اور کم خوراکی کا شکار ہے حالانکہ یہ بنیادی ضروریات ہیں۔

ایک سو تیس غریب افغان خواتین کو بیچ دینے والا ملزم گرفتار

بیٹیوں کی فروخت

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شہری محمد ابراہیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کا خاندان قرضے تلے دب کر رہ گیا تھا اور اس کے پاس اپنی سات سالہ بچی جمیلہ کو فروخت کرنے کے سوا اور کوئی راستہ بچا نہیں تھا۔ ابراہیم کا مزید کہنا تھا کہ قرض دینے والے نے تقاضا کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ وہ عدم ادائیگی پر اس کے گھر کو راکھ میں تبدیل کر دے گا۔ پھر اس شخص نے ابراہیم کو بیٹی فروخت کرنے کا بھی مشورہ دیا تو امیر آدمی کی دھمکیوں کے بعد جمیل کو اپنی بیٹی سے دستبردار ہونے میں عافیت محسوس ہوئی۔ اس طرح کابل کے شہری نے قرض ادا کرنے کے لیے اپنی بیٹی پینسٹھ ہزار افغانی میں فروخت کر دی۔

افغانستان میں غربت کی وجہ سے کمسن بچے کم خوراکی اور بیماریوں سے لاغر ہو چکے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Berry

پینسٹھ ہزار افغانی محض چھ سو بیس یورو بنتے ہیں۔ افغانی انتہائی پسماندہ افغانستان کی کرنسی کا نام ہے، جس کی قدر انتہائی کم ہو چکی ہے۔

افغان صوبے بادغیس کو شدید قحط سالی کا سامنا ہے اور لوگ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس صوبے کا ایک خاندان ایک مہاجر کیمپ میں مقیم ہے اور اس کی ایک نوجوان لڑکی نجیبہ کو پچاس ہزار افغانی میں انتہائی غربت کی وجہ سے فروخت کر دیا گیا۔ ایسے بے شمار واقعات ہیں، جن کو رپورٹ کیا جا سکتا ہے۔

افغانستان میں خوراک کا بحران سابقہ حکومت کی 'میراث' ہے، طالبان

نجیبہ کے والد گل احمد کا کہنا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے اب دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں اور اگر اسی طرح افغان لوگوں کو نظرانداز کرنے اور عدم امداد کا سلسلہ جاری رہا تو وہ اپنی بقیہ بیٹیاں پچاس یا تیس یا بیس افغانی میں بھی فروخت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

طالبان کی حکومت سے قبل بھی مخیر حضرات غریب لوگوں میں مفت روٹی تقسیم کیا کرتے تھےتصویر: Reuters/O. Sobhani

خودکشیوں میں اضافہ

مغرب کی حمایت یافتہ حکومت کے انہدام اور امریکی و نیٹو افواج کے انخلا کے بعد طالبان افغانستان پر حکومت قائم کرنے میں کامیاب تو ہو گئے ہیں لیکن ان کی مشکلات اب بہت بڑھ چکی ہیں۔

اس حکومت کے قیام کے بعد افغان شہریوں کی مالی مشکلات کئی گنا بڑھ گئیں ہیں۔ قرض تلے دبے افراد اس کو اتارنے میں گھر کا ہر قیمتی سامان فروخت کرنے لگے ہیں۔ کئی افراد نے اپنی زندگیاں ختم کرنے کو مناسب خیال کیا۔ خودکشیوں میں اضافے کے علاوہ بے شمار لوگوں کو شدید نفسیاتی اور ذہنی عوارض کا سامنا ہے۔

طالبان شیعہ کمیونٹی کے محافظ لیکن اعتماد کی کمی

عمل کا وقت ہے، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیزلی نے رواں ہفتے کے اوائل میں جنیوا شہر میں منعقدہ ایک بین الاقوامی اجلاس میں عالمی برادری سے اپیل کی تھی کہ عملی اقدام اٹھا کر افغان عوام کی مجبوریوں میں کمی لائیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام نےعالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ عملی اقدام اٹھا کر افغان عوام کی مجبوریوں میں کمی لائیںتصویر: picture-alliance/dpa/AFP/Nemenov

بیزلی کے مطابق فوری عمل کی ضرورت ہے اور ان کے ادارے کو فنڈ مہیا کیے جائیں تا کہ وہاں خوراک کی سپلائی شروع کی جا سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موسم سرما ہر دن بعد شدید ہو رہا ہے اور ایسے میں افغانستان کے لوگوں سے منہ موڑنا کسی بھی طور پر مناسب فعل نہیں ہو گا۔

اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے کوآرڈینیٹر کے دفتر نے بتایا ہے کہ رواں برس اٹھارہ اکتوبر تک چھ لاکھ سڑسٹھ ہزار سے زائد افغان شہری اپنے گھربار چھوڑ چکے ہیں۔

احمد حکیمی (ع ح/ ا ا)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں