غربت کے شکار پاکستانیوں کی سرکاری تعداد چھ کروڑ ہو گئی
8 اپریل 2016![Pakistan Straßenarbeiter](https://static.dw.com/image/18929565_800.webp)
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعہ آٹھ اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں سرکاری سطح پر شہریوں میں غربت کے تعین کا نیا طریقہء کار اور اس کے لیے استعمال کیا جانے والا فارمولا منصوبہ بندی اور ترقیاتی امور کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے جمعرات سات اپریل کو رات گئے متعارف کرایا تھا۔
احسن اقبال کے مطابق اس نئے فارمولے کے تحت شہریوں میں غربت کی سطح ناپنے کے لیے ان کے صحت اور تعلیم جیسی بنیادی انسانی ضروریات پر اٹھنے والے اخراجات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ وزیر منصوبہ بندی کے مطابق پرانے فارمولے میں عام شہریوں کی صرف اشیائے خوراک اور توانائی جیسی ضروریات پر آنے والی لاگت کو پیش نظر رکھا جاتا تھا۔
اس طرح پرانے طریقہ کار کے تحت پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے تھے کہ پورے ملک میں 20 ملین یا دو کروڑ شہری ایسے تھے جو غربت کا شکار تھے۔ یہ شرح ملک کی مجموعی آبادی کا 9.3 فیصد بنتی تھی۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اب نئے فارمولے کے تحت پاکستان میں غریب شہریوں کی سرکاری تعداد قریب چھ کرورڑ یا 60 ملین بنتی ہے، جو پاکستان کی کل آبادی کے 29.5 فیصد کے برابر ہے۔
اس طرح دیکھا جائے تو خود حکومت ملک میں جس حد تک غربت کی موجودگی کا اعتراف کرتی ہے، وہ اب تین گنا ہو کر 30 فیصد بنتی ہے۔ دوسری طرف سماجی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ پورے پاکستان کے 30 فیصد شہریوں کے غربت کا شکار ہونے کا اعتراف اگر خود حکومت اپنے ڈیٹا میں کرتی ہے تو غیر سرکاری طور پر تو ہر کوئی جانتا ہے کہ عملاﹰ یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔
ترقیاتی امور اور منصوبہ بندی کے پاکستانی وزیر کے مطابق ملک میں 20 ملین شہری ایسے بھی ہیں جن کی درجہ بندی ’غربت کا شکار ہو جانے کے خطرے سے دوچار‘ شہریوں کے طور پر کی گئی ہے۔ ایسے پاکستانی باشندے وہ شہری ہیں، جو کسی بھی وقت خط غربت سے نیچے جا سکتے ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ بیان بھی اہم ہے، ’’اس بات سے قطع نظر کہ ملک میں غربت کی سطح ناپنے کے لیے نیا یا پرانا، کون سا فارمولا استعمال کیا جاتا ہے، 2001ء سے ملک میں غربت میں کمی ہی دیکھنے میں آئی ہے۔‘‘