1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غریب پرور جرمن ڈاکٹر، بزرگ لیکن حوصلہ جوان

13 جنوری 2011

باربرا ہوئفلر ایک برزگ ڈاکٹر ہیں، جو گزشتہ 12برسوں سے ہیٹی میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ پورٹ او پرانس کی کچی بستیوں کے چار لاکھ افراد کو وہ تو نہیں جانتیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہاں آباد سب لوگ ان سے ضرور واقف ہیں۔

باربرا ہوئفلرتصویر: picture-alliance/dpa

’باربرا، باربرا، باربرا،‘ یہ آواز اس وقت سنائی دیتی ہے، جب جرمن ڈاکٹر باربرا ہوئفلر اپنی میڈیکل وین پر ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرانس کی سب سے بڑی کچی بستی Cite Soleil کی ناہموار سڑکوں سے گزرتی ہیں۔ یہ آوازیں ان کی گاڑی کے پیچھے بھاگتے ہوئے بچے لگاتے ہیں۔

باربرا کی عمر اب 72 برس ہے اور وہ 1998ء سے اب تک اپنا زیادہ تر وقت ہیٹی میں گزار چکی ہیں۔ وہاں وہ موبائل میڈیکل کلینک چلاتی ہیں۔ پورٹ او پرانس میں آباد چند امریکیوں نے ایک مرتبہ باربرا کے بارے میں کہا تھا، ’یہ ایک جنونی ڈاکٹر ہے، جس کا تعلق جرمنی سے ہے۔‘

جنونی بزرگ ڈاکٹر، یہ بات آبائی ملک میں ان کے کچھ جاننے والوں کے ذہن میں بھی کبھی آئی ہو گی۔ جرمن شہر کولون میں باربرا نارتھ رائن ہیلتھ انشورنس کمپنی کے میڈیکل سروسز ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ رہ چکی ہیں۔ تاہم پاؤں پر گہری چوٹ لگنے کے باعث انہیں ریٹائرمنٹ لینا پڑی تھی۔ ان کا ایک پیر بری طرح سوج گیا تھا اور کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ کبھی چل نہ سکیں گی۔

پھر بھی باربرا نے 1997ء میں پہلی مرتبہ ہیٹی کا دورہ کیا۔ وہ وہاں امداد لے جانے والے ایک گروپ کے ساتھ گئیں اور آٹھ دن وہاں قیام کیا۔ وہاں ان کا سامنا بےگھر بچوں سے ہوا، انہوں نے دکھ اور بیماری کو دیکھا۔

وہ جرمنی واپس لوٹیں تو ایک دن انہوں نے دوبارہ ایک سال کے لیے میڈیکل ڈاکٹر کے طور پر ہیٹی جانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کچھ اضافی طبی کورسز کرنے کے ساتھ ساتھ ہیٹی کی ایک مقامی زبان Creole بھی سیکھنا شروع کر دی۔ اس وقت ان کی عمر 60 برس تھی۔

ڈاکٹر باربرا ہوئفلر ہیٹی کے زلزلے کو بڑی تباہی قرار دیتی ہیںتصویر: AP

وہ کہتی ہیں، ’اور پھر میں اگست 1998ء میں یہاں پہنچ گئی۔‘ اس وقت وہ ایک سال کے لیے ہیٹی پہنچی تھیں، لیکن تب سے آج تک وہیں کام کر رہی ہیں۔ وہ کیتھولک کلیسا کے ڈان باسکو مشن کے یوتھ سروسز پروگرام سے وابستہ ہیں۔ گزشہ برس جنوری میں ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے بارے میں باربرا کہتی ہیں، ’یہ کسی ڈراؤنے خواب کی مانند تھا، ایسا لگا جیسے کسی ٹرین کا کوئی دیوہیکل انجن آپ پر چڑھ دوڑنے کو ہو۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ جلد ہی انہیں خطرے کا احساس ہو گیا تھا اور وہ کسی طرح باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ اس آفت کو ایک سال بیت جانے کے بعد باربرا ہیٹی کے مستقبل کے بارے میں کچھ زیادہ پراُمید نہیں ہیں، جس کا الزام وہ ہیٹی کے حکام کو تو دیتی ہیں، لیکن ساتھ ہی عوام کو بھی قصور وار سمجھتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے بارہ لاکھ افراد کیمپوں میں پڑے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت باہر نکلنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے۔

ان سب باتوں کے باوجود باربرا آج بھی ہیٹی میں ہیں۔ اس نااُمیدی میں بھی انہوں نے وہاں کے لوگوں کو کیوں نہیں چھوڑا، اس بارے میں وہ کہتی ہیں، ’کیونکہ میں ان بچوں سے بہت پیار کرتی ہوں۔‘

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں