افغانستان کے مشرقی شہر غزنی کے اندرونی حالات کا فی الحال تعین کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ طالبان نے شہر سے رابطے کا ٹیلی مواصلاتی ٹاور تباہ کر دیا ہے۔ شہر کے اندر افغان فوج اور عسکریت پسند کی موجودگی بتائی گئی ہے۔
اشتہار
افغان طالبان اور ملکی فوج دونوں کی جانب سے غزنی شہر پر کنٹرول کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ کابل حکومت کا کہنا ہے کہ اُس کی افواج نے شہر کو عسکریت پسندوں سے پوری طرح صاف کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے کیونکہ یہ اب مختلف رہائشی علاقوں میں مورچہ زن ہو گئے ہیں۔
جمعہ دس اگست کو کابل حکومت نے کہا تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز نے عسکری کارروائی کرتے ہوئے طالبان باغیوں کو غزنی کے مرکز سے باہر نکال دیا ہے۔ افغان حکام کے مطابق شہر کے نواحی علاقوں میں ان جنگجوؤں کے ساتھ اکا دکا جھڑپیں ابھی جاری ہیں تاہم مجموعی طور پر صورتحال کو قابو میں کر لیا گیا ہے۔
طالبان نے بھی غزنی پر کنٹرول کا دعویٰ کیا ہے۔ اس عسکری تنظیم کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اُن کے جنگجوؤں نے شہر پر مکمل قبضہ کر لیا ہے۔ مجاہد کے مطابق اُن کے مجاہدین نے پسپا ہوتی افغان فوج کے بھاری اسحلے کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔
طالبان کے ترجمان نے اپنا یہ پیغام میڈیا کے نام ہفتے کو جاری کیا ہے۔ دوسری جانب یہ کہا جاتا ہے کہ طالبان اپنی چھوٹی چھوٹی مسلح کارروائیوں کو غیرضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور بسا اوقات ان میں کوئی صداقت نہیں ہوتی۔
صوبائی گورنر کے ترجمان عارف نوری نے گزشتہ روز بتایا تھا کہ غزنی پر افغان طالبان نے جمعرات نو اگست کی نصف شب میں دھاوا بولا تھا۔ شہر سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس وقت بھی غزنی میں انتشار کی کیفیت پائی جاتی ہے اور عام شہریوں میں شدید خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔
غزنی کی صوبائی کونسل کے رکن گُل رضاعی کے مطابق شہر پر کنٹرول کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ طالبان نے مواصلاتی ٹاور تباہ کر دیا ہے۔ رضاعی نے مزید بتایاکہ موبائل سروس پوری طرح معطّل ہے اور شہر کے نواحی علاقوں میں لڑائی کی اطلاعات ہیں۔ صوبائی کونسل کے رکن نے غزنی شہر کے داخلی حالات کو انتہائی تکلیف دہ اور مشکل قرار دیا ہے۔
حقانی نیٹ ورک کیا ہے؟
حقانی نیٹ ورک ایک افغان جنگجو گروہ ہے، جو افغانستان میں مقامی اور امریکی تحادی افواج کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ افغان حکام اور عالمی برادری اسے افغانستان میں فعال ایک انتہائی خطرناک عسکری گروہ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک کب بنا؟
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
تصویر: AP
جلال الدین حقانی اور طالبان
طالبان کی حکومت میں جلال الدین حقانی کو قبائلی امور کا وزیر بنا دیا گیا تھا۔ امریکی اتحادی افواج کی کارروائی یعنی سن دو ہزار ایک تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ امریکی اتحادی افواج نے سن دو ہزار ایک میں ہی طالبان کی خود ساختہ حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ملا عمر کے بعد جلال الدین حقانی کو طالبان کا معتبر ترین رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ حقانی کے اسامہ بن لادن سے بھی قریبی تعلقات تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جلال الدین حقانی کی نجی زندگی
سن 1939 میں افغان صوبے پکتیا میں پیدا ہونے والے جلال الدین حقانی نے پاکستان میں قائم دارالعلوم حقانیہ نامی مدرسے سے تعلیم حاصل کی۔ یہ وہی مدرسہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا عنصر نمایاں ہے۔ جلال الدین حقانی نے دو شادیاں کیں۔ ان کی ایک اہلیہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے بتایا جاتا ہے۔ حقانی کو سنی خلیجی ممالک میں کافی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
یہ نیٹ ورک ہے کہاں؟
حقانی نیٹ ورک کا کمانڈ سینٹر مبینہ طور پر پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں قائم ہے۔ امریکی اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو پاکستانی فوج کی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ افغانستان میں سرحد پار کارروائیاں بھی کرتا رہتا ہے۔ تاہم پاکستان یہ الزامات رد کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک افغانستان میں امریکی اور ملکی حکومت کے مفادات کو نشانہ بناتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
سراج الدین حقانی بطور سربراہ
اپنی علالت کے باعث جلال الدین حقانی نے اپنے شدت پسند نیٹ ورک کی قیادت اپنے بیٹے سراج الدین حقانی کو سونپ دی تھی۔ سراج الدین افغان طالبان کا نائب کمانڈر بھی ہے۔ سن دو ہزار پندرہ میں ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ جلال الدین حقانی انتقال کر گئے تھے تاہم طالبان اور حقانی خاندان نے ان خبروں کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الدین حقانی کون ہے؟
حقانی نیٹ ورک کے موجودہ کمانڈر سراج الدین حقانی نے اپنا بچپن میران شاہ میں بسر کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے پشاور کے نواح میں واقع حقانیہ مدرسہ سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سراج الدین جنگی امور کا ماہر بھی ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ سراج الدین اپنے والد جلال الدین کے مقابلے میں زیادہ انتہا پسندانہ نظریات کا مالک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انس حقانی بطور قیدی
جلال الدین حقانی کے متعدد بیٹوں میں سے ایک کا نام انس حقانی ہے، جو ان کی متحدہ عرب امارات سے تعلق رکھنے والی بیوی سے پیدا ہوا تھا۔ انس حقانی اس وقت افغان حکومت کی قید میں ہے اور اسے ایک مقامی عدالت نے سزائے موت سنا رکھی ہے۔ حقانی نیٹ ورک نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر انس کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کیا گیا، تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/National Directorate of Security
یہ گروہ ہے کتنا بڑا؟
مختلف اندازوں کے مطابق اس گروہ کے جنگجوؤں کی مجموعی تعداد تین تا دس ہزار بنتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس گروہ کی زیادہ فنڈنگ خلیجی ممالک کی طرف سے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک مختلف مجرمانہ کارروائیوں سے بھی اپنے لیے مالی وسائل جمع کرتا ہے، جن میں اغوا برائے تاوان اور لوٹ مار بھی شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tanveer
حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروہ
حقانی نیٹ ورک کے افغان طالبان کے ساتھ روابط تو واضح ہیں لیکن یہ جنگجو گروہ مختلف دیگر دہشت گرد گروپوں سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ ان میں القاعدہ نیٹ ورک، تحریک طالبان پاکستان، ازبکستان کی اسلامی تحریک اور پاکستان میں قائم ممنوعہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ جلال الدین حقانی کے اسامہ بن لادن سے تعلقات تو تھے ہی لیکن وہ القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری سے بھی روابط رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Ausaf Newspaper
پاکستان سے راوبط
امریکی اور افغان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستانی فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مدد حاصل ہے۔ تاہم پاکستانی حکومت اور فوج دونوں اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کا اصرار ہے کہ پاکستانی حکومت کو ملکی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں قائم اس دہشت گرد نیٹ ورک کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا چاہیے۔