عالمی رہنماؤں نے ایک بار پھر حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی پر زور تو دیا ہے تاہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں وہ کسی ایک بیان پر متفق نہیں ہوئے۔ اس دوران ہلاکتوں میں اضافہ جاری ہے۔
اشتہار
غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جس میں مزید فلسطینیوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ غزہ میں وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی فضائی بمباری میں اب تک کم سے کم 220 فلسطینی ہلاک اور پندرہ سو کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 63 بچے اور 36 خواتین بھی ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کے راکٹ حملوں میں اس کے بارہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
اس دوران منگل کے روز مقبوضہ غرب اردن کے علاقے میں اسرائیلی فورسز نے مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں کے ایک گروپ پر فائرنگ کردی جس میں چار مزید فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اس سے قبل اسی علاقے میں مظاہرین پر فائرنگ میں گیارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حماس اور اسلامک جہاد گروپ کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں اس کے اب تک کم سے کم 20 جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔ لیکن اسرائیل نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کم سے کم 130 جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری کی مخالفت میں اسرائیل میں رہنے والے عرب اور مقبوضہ علاقوں کے فلسطینیوں نے منگل کے روز عام ہڑتال کی۔ یہ ہڑتال مسجد اقصی میں نمازیوں پر اسرائیلی حملے اور مشرقی یروشلم کے شیخ جراح علاقے میں صدیوں سے بسے فلسطینیوں کو وہاں سے اجاڑنے کے منصوبے کی مخالفت کے لیے بھی کی گئی تھی۔
اقوام متحدہ میں کوئی پیش رفت نہیں
اس تنازعے پر 18 مئی منگل کے روز ایک بار پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا تاہم اس کے 15 ارکان کسی ایک بیان پر متفق نہ ہو سکے۔ اس سے قبل اسرائیل کے حامی امریکا نے جنگ بندی نافذ کرنے اور کشیدگی کم کرنے سے متعلق ایک بیان کو ویٹو کر دیا تھا۔
فرانس نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی قرارداد کے لیے سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا تھا تاہم اس بار بھی اس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ عموماً سلامتی کونسل کی قراردادوں پر قانوناً عمل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن قرارداد کی منظوری کے لیے جہاں پندرہ رکنی کونسل کے کم سے کم نو ارکان کے مثبت ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے وہیں پانچوں مستقل اراکین میں سے کسی بھی رکن کی جانب سے ویٹو نہ کرنا بھی لازمی ہے۔
اشتہار
عالمی برادری کا رد عمل
یورپی یونین میں خارجی امور کے سربراہ جوسیپ بوریل کا کہنا ہے کہ بلاک کے وزرا خارجہ نے حماس اور اسرائیل کے درمیان فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن 27 رکنی یونین کی جانب سے جاری ہونے والے اس بیان کی ہنگری نے حمایت نہیں کی۔
گزشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن نے جنگ بندی کے حق میں ہونے کی بات تو کہی تھی تاہم انہوں نے اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اس سلسلے میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے فون پر بات بھی کی تھی۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اردن کے شاہ عبداللہ سے بات چیت کے دوران دونوں رہنماؤں نے، ''اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ سیاسی مذاکرات کی بحالی کے لیے حالات سازگار بنانے کے مقصد سے فوری طور پر جنگ بندی کے اقدامات کی حمایت کی جانی چاہیے۔''
فرانس بھی جنگ بندی کی بات کرتا رہا ہے اور اس نے اس معاملے میں مصر کی قیادت میں ثالثی کی حمایت کی ہے۔
اسرائیل اور حماس کا موقف کیا ہے؟
عالمی رہنماؤں کی جانب سے جنگ بندی کے مطالبے کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو حملے جاری رکھنے کی بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''اسرائیلی شہریوں کی بے قراری اور بے چینی دور ہونے تک جب تک ضروری ہے لڑائی جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس اور اسلامک جہاد کو اس قدر نقصان پہنچا ہے کہ وہ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ''ہم نے انہیں کئی برس پیچھے دھکیل دیا ہے۔''
اسرائیل فلسطین تنازعہ، دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اسرائیل اور فلسطین حالیہ تاریخ کے بدترین تنازعہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی پر فضائی بمباری اور حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل میں راکٹ داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک نظر اس تنازعہ پر
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
اسرائیل پر راکٹ داغے گئے
دس مئی کو حماس کی جانب سے مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل پر راکٹ داغے گئے۔ اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی میں غزہ پر بھاری بمباری کی گئی۔ تشدد کا یہ سلسلہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فروسزکے درمیان تصادم کے بعد شروع ہوا۔
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
تل ابیب میں راکٹ داغے گئے
گیارہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مرکز میں بمباری کی گئی جوابی کارروائی کرتے ہوئے حماس کی جانب سے تل ابیب میں راکٹ داغے گئے۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
فرقہ وارانہ تشدد
اگلے روز اسرائیل میں فلسطینی اور یہودی آبادیوں میں تناؤ اور کشیدگی کی رپورٹیں آنا شروع ہوئی۔ اور فرقہ وارانہ تشدد کے باعث ایک اسرائیلی شہری ہلاک ہوگیا۔ پولیس کی جانب سے تل ابیب کے ایک قریبی علاقے میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ پولیس نے چار سو سے زائد عرب اور یہودی افراد کو حراست میں لے لیا۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
ہنگامی اجلاس
بارہ مئی کو روس کی جانب سے یورپی یونین، امریکا اور اقوم متحدہ کے اراکین کے ساتھ اس بگڑتی صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔
تصویر: Ahmad gharabli/AFP
جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات
تیرہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کی سرحد کے پاس جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات کر دیے گئے۔ اگلے روز اسرائیل کے زیر انتظام مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپوں میں گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: Mussa Qawasma/REUTERS
مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری
پندرہ مئی کو غزہ میں قائم مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری سے ایک ہی خاندان کے دس افراد ہلاک ہو گئے۔ کچھ ہی گھنٹوں پر اسرائیلی نے بمباری کرتے ہوہے ایک ایسی عمارت کو مسمار کر دیا گیا جس میں صحافتی ادارے الجزیرہ اور اے پی کے دفاتر تھے۔ اس عمارت میں کئی خاندان بھی رہائش پذیر تھے۔ بمباری سے ایک گھنٹہ قبل اسرائیل نے عمارت میں موجود افراد کو خبردار کر دیا تھا۔
تصویر: Mohammed Salem/REUTERS
حماس کے رہنماؤں کے گھروں پر بمباری
اگلے روز اسرائیل کی جانب سے حماس کے مختلف رہنماؤں کے گھروں پر بمباری کی گئی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں بیالیس فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے سکریڑی جنرل کی جانب سے اس تنازعہ کو فوری طور پر ختم کیے جانے کی اپیل کی گئی۔
تصویر: Mahmud Hams/AFP
'اسلامک اسٹیٹ' کا ایک کمانڈر ہلاک
سترہ مئی کو دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ' کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیلی بمباری میں ان کا ایک کمانڈر ہلاک ہو گیا ہے۔ دوسری جانب اقرام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکا کی جانب سے تیسری مرتبہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ پر اس مشترکہ بیان کو روک دیا گیا جس میں تشدد کے خاتمے اور شہریوں کو تحفظ پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: Said Khatib/AFP
دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اس حالیہ تنازعہ میں اب تک دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے قریب ساٹھ بچے ہیں۔ تیرہ سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images
تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے ہیں جن کے باعث ایک بچے سمیت دس اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔
ب ج، ا ا (اے ایف پی)
تصویر: Amir Cohen/REUTERS
10 تصاویر1 | 10
ادھر نیو یارک ٹائمز نے حماس کے ایک سینیئر رہنما موسی ابو مرزوک کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسلامی گروپ بھی غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ''اسرائیل کا مطالبہ ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ کوئی فیصلہ کرے حماس پہلے خود یکطرفہ طور پر دو تین گھنٹے کے لیے حملے بند کرے، لیکن کیا خود اسرائیل ایسا کرے گا۔''
ابو مرزوک کا کہنا تھا کہ حماس جنگ بندی تو چاہتا ہے تاہم یکطرفہ طور پر نہیں بلکہ ایک ساتھ اور باہمی اتفاق سے۔ لیکن میڈیا کی اطلاعات کے مطابق فریقین اس کے تئیں اب بھی پر عزم نہیں ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔