1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

غزہ اور لبنان کی صورت حال پر ریاض میں عرب اسلامک سمٹ

11 نومبر 2024

پچاس سے زائد عرب اور اسلامی ملکوں کے سربراہان غزہ اور لبنان کے حالات پر آج پیر کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بات چیت کر رہے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف بھی اس سربراہی اجلاس میں شریک ہیں۔

ایک سال قبل بھی سعودی عرب نے عرب اسلامک سمٹ کا انعقاد کیا تھا
ایک سال قبل بھی سعودی عرب نے عرب اسلامک سمٹ کا انعقاد کیا تھا تصویر: Mustafa Kamaci/Anadolu/picture alliance

یہ غیر معمولی سربراہی اجلاس سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے بلایا گیا ہے، جس میں شرکت کے لیے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف بھی ریاض پہنچ گئے ہیں۔

ایک سال قبل بھی سعودی عرب نے ایسے ہی ایک اجلاس میں ان ممالک کو مدعو کیا تھا، جس میں غزہ کی جنگ کو ختم کرانے کے حوالے سے کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں، لیکن اس عمل کا اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔

عرب اور مسلم ممالک کی سمٹ، غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ

سعودی ذرائع کے مطابق، ''اس سمٹ میں مقبوضہ فلسطینی علاقے اور لبنان میں اسرائیل کی بڑھتی ہوئی جارحیت پر غور کیا جا رہا ہے۔‘‘

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق اس عرب اسلامک سمٹ کی اہم ترجیحات میں اسرائیلی جارحیت کو رکوانا، شہریوں کا تحفظ، فلسطینی اور لبنانی عوام کو مدد فراہم کرنا، پوزیشنوں کو متحد کرنا اور بین الاقوامی برادری پر دباؤ ڈالنا شامل ہیں، تاکہ وہ بھی خطے میں جاری جارحیت کے خاتمے اور وہاں دیرپا امن و استحکام کے قیام کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرے۔

غزہ کی صورت حال پر عرب رہنماؤں کی سمٹ آج بحرین میں

ذرائع کے مطابق سعودی عرب، اردن، مصر، قطر، ترکی، انڈونیشیا، نائیجیریا اور فلسطین کے وزرائے خارجہ عرب لیگ اور اسلامی تعاون کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ مل کر غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو رکوانے اور دیرپا اور جامع امن کے حصول کے لیے فوری بین الاقوامی اقدامات شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباستصویر: Saudi Press Agency/Newscom/picture alliance

یہ سربراہی اجلاس کتنا اہم ہے؟

معروف تھنک ٹینک انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی خلیجی امور کی تجزیہ کار اینا جیکب کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے برعکس آج کے اجلاس میں شریک رہنماؤں کے ذہنوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہو جانے کی بات ضرور رہے گی۔

سعودی عرب کے شاہ سلمان کا غزہ میں فائر بندی کا مطالبہ

انہوں نے کہا، ''یہ سربراہی اجلاس علاقائی رہنماؤں کے لیے آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کو اشارہ دینے کا بہت اہم موقع ہے کہ وہ امریکی ترجیحات کے حوالے سے کیا چاہتے ہیں۔‘‘

’’یہ پیغام ممکنہ طور پر بات چیت، کشیدگی میں کمی اور خطے میں اسرائیلی فوجی مہمات کو ختم کرنے سے متعلق ہو گا۔‘‘

برمنگھم یونیورسٹی میں سعودی سیاسی امور کے ماہر عمر کریم نے کہا کہ ریاض پیر کے اجلاس کو ٹرمپ کی آنے والی ٹیم کو یہ اشارہ دینے کے لیے استعمال کرے گا کہ وہ ایک مضبوط شراکت دار ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیغام یہ ہے کہ ٹرمپ ''مسلم دنیا کے نمائندے ہونے کے حوالے سے سعودیوں پر بھروسا کر سکتے ہیں،‘‘ اور یہ کہ ''اگر آپ خطے میں امریکی مفادات کو بڑھانا چاہتے ہیں، تو سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘‘

عمر کریم نے کہا کہ پیر 11 نومبر کو ہونے والے اس سربراہی اجلاس کے بعد کے بیان میں ممکنہ طور پر ''اسرائیل کی شدید مذمت کی جائے گی ... جبکہ اس معاملے میں امریکہ کے زیادہ سے زیادہ کردار اور سفارت کاری پر زور دیا جائے گا۔‘‘

اسرائیل کی جوابی عسکری کارروائیوں میں غزہ میں اب تک 43,600 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: Omar AL-QATTAA/AFP

ہلاکتوں کا سلسلہ جاری

گزشتہ سال سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے دہشت گردانہ حملے کے ساتھ، جس کے نتیجے میں 1,206 افراد ہلاک ہوئے تھے، غزہ کی جنگ شروع ہوئی تھی۔ اسرائیل کی جوابی عسکری کارروائیوں میں غزہ میں اب تک 43,600 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔

لبنان میں قائم حزب اللہ، جسے حماس کی طرح ایران کی حمایت حاصل ہے، نے سات اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل پر حملے شروع کر دیے تھے۔ اس سال ستمبر کے آخر میں سرحد پار سے حملوں کے باقاعدہ تبادلوں میں اضافہ ہوا جس کے بعد اسرائیل نے لبنان میں اپنے فضائی حملے تیز کر دیے اور جنوبی لبنان میں اپنی زمینی فوج بھی بھیج دی تھی۔

غزہ کے شہریوں پر اسرائیل کی فوجی مہمات کے اثرات پر تنقید کے باوجود موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اس بات کو یقینی بنایا کہ واشنگٹن ایک سال سے بھی زیادہ عرصے کی اس لڑائی کے دوران اسرائیل کا سب سے اہم فوجی حمایتی رہا۔

ج ا ⁄ ص ز، م م (اے ایف پی، ڈی پی اے، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں