’غزہ بحران پر اسرائیلی اور مصری رہنماؤں نے گفتگو کی‘
14 اگست 2018
اسرائیلی وزیر خزانہ موشے کالون نے تصدیق کر دی ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے مئی میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات میں غزہ پٹی میں طویل المدتی جنگ بندی معاہدے کی خاطر مذاکرات کیے تھے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے اسرائیلی وزیر خزانہ موشے کالون کے حوالے سے چودہ اگست بروز منگل بتایا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے مئی میں اپنے دورہ مصر کے دوران صدر السیسی سے ملاقات میں غزہ پٹی میں سیز فائر پر بھی گفتگو کی تھی۔ یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب اسرائیل سے متصل غزہ پٹی کی سرحد پر کشیدگی بڑھتی جا ری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے طویل المدتی فائر بندی کے علاوہ حماس کے زیر قبضہ اس علاقے میں پائیدار امن اور ممکنہ ترقیاتی منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔
پیر کے دن جب ان رہنماؤں کی خبریں عام ہوئی تھیں تو اسرائیلی وزیراعظم کے ترجمان نے ان کی تردید یا تصدیق کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ حالیہ مہینوں میں غزہ پٹی میں مقیم فلسطینوں کی طرف سے پرتشدد احتجاج کے سلسلے کے بعد امریکا اور مصر نے کوشش شروع کر دی ہے کہ دونوں فریق ایک طویل المدتی جنگ بندی ڈیل پر رضا مند ہو جائیں۔ اس مقصد کی خاطر امریکا اور مصر ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
پیر کے دن اسرائیلی میڈیا میں جاری ہونے والی رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نے مصری صدر سے ملاقات میں غزہ پٹی کی ناکہ بندی میں نرمی، بنیادی شہری ڈھانچے کی تعمیر نو اور فائر بندی کی شرائط پر گفتگو کی تھی۔
اسرائیلی آرمی ریڈیو میں ایک پروگرام میں شرکت کے دوران کالون نے کہا کہ نیتن یاہو اور السیسی نے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزہ پٹی میں جو کچھ بھی کیا جائے گا، وہ مصر کی ثالثی اور تعاون کے ساتھ ہی کیا جائے گا۔
غزہ پٹی میں دو ملین سے زائد فلسطینی آباد ہیں، جو اسرائیلی اور مصری ناکہ بندی کی وجہ سے متعدد مشکلات کا شکار ہیں۔ عالمی بینک کے مطابق اس فلسطینی علاقے میں پینے کے صاف پانی اور ادویات کی قلت کے علاوہ بجلی کی فراہمی میں بھی شدید مسائل ہیں، جس کی وجہ سے غزہ پٹی کے باسی ایک بحرانی حالت کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیل اور مصر کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی کی ناکہ بندی سکیورٹی تحفظات کی وجہ سے کی گئی ہے۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔