1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ جنگ بندی: مصری صدر مرسی کا کلیدی کردار

23 نومبر 2012

اسرائیل اور حماس کے درمیان 8 روزہ غزہ جنگ کے بعد دونوں جانب ہتھیار خاموش ہیں۔ ثالثی میں اہم کردار ادا کرنے والے مصری صدر محمد مرسی اب داخلی سیاسی سطح پر اپنے اختیارات کا دائرہ وسیع کرنے پر شدید تنقید کی زَد میں ہیں۔

تصویر: dapd

غزہ کی جنگ مصری صدر محمد مرسی کے لیے پہلی بڑی آزمائش تھی، جس میں وہ سرخرو ٹھہرے۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی مرسی کے کردار کو سراہا اور کہا:’’نئی حکومت نے ایسی ذمہ دارانہ قیادت کا مظاہرہ کیا ہے، جس نے اس ملک کو پورے خطّے میں امن اور استحکام کے ایک اہم ستون کی شکل دے دی ہے۔‘‘

اور تو اور اسرائیلی وزیر خارجہ آویگدور لیبرمن نے بھی، جو یقیناً قاہرہ کے دوست ہونے کی شہرت نہیں رکھتے، جنگ بندی کے لیے مرسی کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا۔

ایک طرف مصر کو سب سے زیادہ مالی وسائل فراہم کرنے والا امریکا تھا، جو یہ توقع کر رہا تھا کہ مرسی حماس کی قیادت کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے پر آمادہ کریں گے۔ دوسری طرف مرسی کے حامی تھے، جن کا اصرار یہ تھا کہ غزہ پٹی میں فلسطینی بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا جائے۔

پروفیسر ڈاکٹر ہینر فرٹِشتصویر: Werner Bartsch

مرسی کی جماعت اخوان المسلمون برسوں تک سابق صدر حسنی مبارک کی اسرائیل دوست پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بناتی رہی ہے۔ گزشتہ سال اقتدار سے رخصت کر دیے جانے والے معزول صدر مبارک چار سال پہلے کی غزہ جنگ کو خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے تھے۔

مرسی نے غزہ کے خلاف اسرائیلی حملے شروع ہوتے ہی پہلے تو اپنا سفیر واپَس بلا لیا۔ مرسی نے سرکاری ٹیلی وژن پر کہا:’’اسرائیلیوں کو جان لینا چاہیے کہ ہم اس جارحیت کو قبول نہیں کریں گے۔‘‘ اس کے فوراً بعد اُنہوں نے اپنے وزیر اعظم حشام قندیل کو فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے غزہ بھیج دیا۔ ساتھ ہی مصر حماس کو جنگ بندی پر مائل کرنے کی بھی کوششیں کرتا رہا، جو بالآخر کامیاب رہیں۔

محمد مرسی کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ خدشات زور پکڑ گئے تھے کہ اب مصری خارجہ پالیسی میں انتہا پسندی غالب آ جائے گی کیونکہ اخوان المسلمون اور حماس کے درمیان بڑے پیمانے پر نظریاتی قربت موجود ہے۔ تاہم GIGA انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر Henner Fürtig کہتے ہیں:’’مصری حکومت نے کافی زیادہ محنت اور کوشش کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ان توقعات کو پورانہیں کیا بلکہ یہ بھی ثابت کیا ہے کہ وہ غیر جانبدار ہے اور لڑائی کے سلسلے میں خود کو حماس کے شانہ بشانہ کھڑا محسوس نہیں کرتی‘۔

وہ کہتے ہیں کہ مصری خارجہ پالیسی میں مصر کے اپنے مفادات کو اولین حیثیت حاصل ہے، وہاں حماس کا کردار محض ضمنی نوعیت کا ہے۔

مصری ماہر سیاسیات حدا صالح بتاتی ہیں:’’میرے خیال میں مرسی ایک عملیت پسندانہ شخصیت ہیں اور اپنے اقتدار کو بچانا اُن کی اولین ترجیح ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ جہاں تک اسرائیل کی جانب پالیسیوں کا سوال ہے، اُن میں مبارک دور کے مقابلے میں کوئی زیادہ فرق نہیں آیا۔ حدا صالح کے مطابق ’جب مرسی اپوزیشن میں تھے تو اُن کے لیے اسرائیلیوں اور مصر کی خارجہ پالیسیوں کو ہدفِ تنقید بنانا آسان تھا۔ اب وہ صدر ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو ایک دشمن کے طور پر پیش کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے‘۔

غزہ میں حالیہ جنگ کے دوران تباہی کا ایک منظرتصویر: picture-alliance/dpa

داخلی سیاسی سطح پر مرسی اپنے اختیارات کا دائرہ بڑی حد تک وسیع کرنے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے عدلیہ کے اختیارات بڑے پیمانے پر محدود بنا دیے ہیں۔ اُنہوں نے آئینی عدالت سے اُس آئین ساز کمیٹی کی قانونی حیثیت کے بارے میں فیصلہ کرنے کے اختیارات واپس لے لیے ہیں، جس پر اسلام پسندوں کا غلبہ ہے۔ انہوں نے گزشتہ مہینوں کے دوران حکومت پر تنقید کرنے ولے اٹارنی جنرل کو بھی اُن کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔

آنے والے ہفتوں میں ابھی مرسی کو کئی چیلنجز کا سامنا ہو گا۔ مثلاً اسرائیل اور فلسطینی اب طویل المدتی جنگ بندی اور خود مختار فلسطینی علاقوں کی جانب سرحدیں کھولنے کے موضوع پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ ہتھیار اسمگل ہو کر غزہ پٹی نہ پہنچیں۔ حماس کا تقاضا ہے کہ غزہ پٹی کی 2007ء سے چلی آ رہی ناکہ بندی ختم کی جائے۔

تاہم حدا صالح کہتی ہیں کہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تنازعے کا کوئی طویل المدتی حل مصری صدر محمد مرسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ اب جنگ بندی نافذ العمل ہے لیکن خطّے میں اگلی جنگ کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔

N.Naumann/aa/ab

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں