1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

غزہ جنگ کے بعد کی صورتحال: یو اے ای پس پردہ مذاکرات کا حصہ

7 جنوری 2025

ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات نے غزہ میں آئندہ جنگ بندی کے بعد کی صورتحال پر پس پردہ مذاکرات میں شرکت کی ہے۔ ممکنہ امکانات میں غزہ میں عارضی انتظامیہ کا قیام اور امن مشن کی تعیناتی بھی شامل ہیں۔

Symbolbild Beziehungen Israel VAE
تصویر: Christopher Pike/Reuters

مذاکرات سے واقف حلقوں کے مطابق متحدہ عرب امارات نے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ غزہ پٹی کی عارضی انتظامیہ میں اس وقت تک شرکت پر تبادلہ خیال کیا ہے، جب تک ایک نئی فلسطینی اتھارٹی ذمہ داری سنبھالنے کے قابل نہیں ہو جاتی۔

اسرائیل کا احتساب کرنا لازمی ہو چکا، اقوام متحدہ کے ماہرین

جنگ بندی معاہدے میں تاخیر، حماس اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر الزام

غیر ملکی سفارت کاروں اور مغربی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ پردے کے پیچھے ہونے والی اس بات چیت میں اس امکان کا بھی جائزہ لیا گیا کہ متحدہ عرب امارات اور امریکہ دیگر ممالک کے ساتھ مل کر اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد اور فلسطینی انتظامیہ کے وہاں اقتدار سنبھالنے تک عارضی طور پر غزہ کی حکمرانی، سلامتی اور تعمیر نو کی نگرانی کریں گے۔

متحدہ عرب امارات امریکہ کا قریبی پارٹنر ملک ہے اور بیشتر عرب حکومتوں کے برعکس اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی ہیں۔ سفارت کاروں اور حکام کا کہنا ہے کہ اس سبب غزہ کے مستقبل کے حوالے سے اس خلیجی ریاست کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت پر کچھ برتری حاصل ہو گی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات سمیت متعدد شراکت داروں کے ساتھ گورننس، سلامتی اور تعمیر نو کی آپشنز پر بات چیت ہوئی ہے۔تصویر: Khalil Ramzi Alkahlut/Anadolu/picture alliance

ان ذرائع نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ میں اسرائیل آج بھی غزہ پٹی کے بارے میں ایک واضح خاکہ پیش کرنے سے گریزاں ہے اور بین الاقوامی برادری ایک قابل عمل منصوبہ تیار کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

تاہم ان سفارت کاروں اور عہدیداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مذاکرات میں پیش کیے جانے والے متحدہ عرب امارات کے خیالات میں تفصیل کا فقدان ہے اور انہیں ابھی تک کسی رسمی، تحریری منصوبے کی شکل دی گئی ہے اور نہ ہی کسی حکومت نے انہیں باضابطہ تسلیم کیا ہے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ ابوظہبی ان مذاکرات میں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی ریاست کے تصور کے تحت حکومت کرنے کے لیے ایک اصلاح شدہ فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کی وکالت کر رہا ہے، تاہم یہ ایک ایسی چیز ہے، جس کی اسرائیل عوامی سطح پر مخالفت کرتا ہے۔

غزہ کے بچے، بقا کی جدوجہد میں

02:21

This browser does not support the video element.

ان مذاکرات کے حوالے سے خبر رساں ادارے روئٹرز کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں متحدہ عرب امارات کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا، ''متحدہ عرب امارات ایسے کسی بھی منصوبے میں حصہ نہیں لے گا، جس میں فلسطینی اتھارٹی میں اہم اصلاحات، اسے بااختیار بنانے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے قابل اعتماد روڈ میپ شامل نہ ہو۔‘‘

اس اماراتی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ یہ عناصر، جن کی فی الحال کمی ہے، غزہ پٹی میں جنگ کے بعد کے منصوبے کی کامیابی کے لیے لازمی ہیں۔

فلسطینی اتھارٹی کا قیام تین دہائیاں قبل 1993-1995 کے اوسلو معاہدے کے تحت عمل میں آیا تھا، جس پر اسرائیل اور فلسطینیوں نے دستخط کیے تھے اور اسے مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں محدود اختیارات دیے گئے تھے۔ اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے میں اب بھی اس اتھارٹی کی کسی حد تک حکمرانی جاری ہے لیکن حماس نے 2007 میں ایک مختصر خانہ جنگی کے بعد غزہ پٹی میں اس کی حکمرانی کا خاتمہ کر دیا تھا۔

ذرائع کے مطابق ایک سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ میں اسرائیل آج بھی غزہ پٹی کے بارے میں ایک واضح خاکہ پیش کرنے سے گریزاں ہےتصویر: picture alliance / Ali Jadallah / Anadolu

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات سمیت متعدد شراکت داروں کے ساتھ گورننس، سلامتی اور تعمیر نو کی آپشنز پر بات چیت ہوئی ہے اور شراکت داروں کی جانب سے مختلف تجاویز، منصوبے اور خیالات پیش کیے گئے ہیں۔

ترجمان نے 'نجی سفارتی بات چیت‘ پر مزید کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا، ''یہ بات چیت جاری ہے، کیونکہ ہم آگے بڑھنے کا بہترین راستہ تلاش کر رہے ہیں۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے اس خبر پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا جبکہ فلسطینی اتھارٹی نے بھی روئٹرز کے سوالات کا کوئی جواب نہ دیا۔

ا ب ا/ا ا، م م (روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں