1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

غزہ جنگ کے تین ماہ مکمل، ہلاکتوں کی تعداد 23 ہزار کے قریب

7 جنوری 2024

اسرائیلی فوج کے غزہ پر تازہ حملوں میں دو صحافیوں سمیت ایک سو تیرہ افراد ہلاک ہو گئے۔ دوسری جانب اردن کے شاہ عبداللہ نے خطے کا دورہ کرنے والے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پرغزہ میں جنگ بندی کے لیے زور دیا ہے۔

Gaza-Streifen, Gaza Stadt | Rauch nach Israelischem Angriff
تصویر: Menahem Kahana/AFP

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران اسرائیلی افواج کے حملوں میں دو فلسطینی صحافیوں سمیت 123 افراد ہلاک ہو گئے۔ غزہ میں صحافیوں کی یونین کے مطابق فری لانس صحافی حمزہ وائل الدحدوح اور مصطفیٰ ثورایا کی گاڑی کو جنوبی غزہ میں رفح اور خان یونس کے درمیان دوران سفر نشانہ بنایا گیا۔

 بی بی سی کے مطابق ان صحافیوں کے گروپ کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اسرائیلی فوج کی جانب سے محفوظ قرار دیے گئے ''انسانی ہمدردی کے علاقوں‘‘ کی رپورٹنگ کے لیے جا رہے تھے۔ ان علاقوں پر حال ہی میں اسرائیلی فضائیہ نے بمباری کی تھی۔

الجزیرہ کے غزہ میں بیورو چیف وائل الدحدوح اسرائیلی حملے میں ہلاک ہونے والے اپنے بیٹے اور صحافی حمزہ کا ہاتھ تھامے ہوئےتصویر: Hatem Ali/AP/picture alliance

ہلاک ہونے والے ایک صحافی حمزہ کے والد وائل الدحدوح قطری نیوز چینل الجزیرہ کے غزہ میں بیورو چیف ہیں۔ اس نشریاتی ادارے نے ایک بیان میں اسرائیل پر ''آزادی صحافت کے اصولوں کی خلاف ورزی‘‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا، ''الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک اسرائیلی قابض افواج کی طرف سے فلسطینی صحافیوں کی گاڑی کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت کرتا ہے۔‘‘ اسرائیلی فوج نے فوری طور پر اس واقعے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

  اسرائیلی فوج البتہ ماضی میں صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کی تردید کر چکی ہے۔ خیال رہے کہ الجزیرہ کے تجربہ کار نامہ نگار وائل الدحدوح کی اہلیہ، ایک اور بیٹا، بیٹی اور پوتا اکتوبر کے آخر میں اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے۔ وہ خود بھی دسمبر میں ایک اسرائیلی حملے کے دوران زخمی ہو گئے تھے۔

 میڈیا کے حقوق پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ادارے کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق غزہ میں جاری تنازعے کی کوریج کرتے ہوئے  ہفتہ چھ جنوری تک 77 صحافی اور میڈیا ورکرز مارے جا چکے ہیں۔ ان میں 70 فلسطینی، چار اسرائیلی اور تین لبنانی شامل ہیں، جو تمام مختلف میڈیا اداروں بشمول روئٹرز، ایجنسی فرانس پریس اور ترکی کی انادولو نیوز ایجنسی کے لیے کام کر رہے تھے۔

حماس کے زیر انتظام غزہ میں قائم وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر کو اسرائیلی حملوں کے آغاز کے بعد سے لے کر اب تک 22 ہزار 835 افراد ہلاک اور 58 ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔

اردن کے شاہ کا جنگ بندی پر زور

اردن کے بادشاہ نے مشرق وسطیٰ کے خطے کا دورہ کرنے والےامریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے کہا ہے کہ وہ غزہ جنگ بندی پر زور دیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان سات اکتوبر کو شروع ہونے والے تنازع کے بعد اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار خطے کے اپنے چوتھے دورے پر ہیں۔ اردن کے شاہی محل سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق شاہ عبداللہ نے بلنکن کو ''غزہ میں جاری تنازعے کے تباہ کن نتائج کے بارے میں خبردار کیا اور وہاں المناک انسانی بحران کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔‘‘

انٹونی بلنکن اردن کے بادشاہ عبداللہ سے ملاقات کے دوران تصویر: Royal Hashemite Court/Handout via Reuters

بیان کے مطابق شاہ عبداللہ نے جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنے اور امداد کی ترسیل کو یقینی بنانے میں امریکہ کے اہم کردار پر زور دیا۔ بلنکن نے عمان میں کہا، ''ہماری توجہ اس تنازعہ کو پھیلنے سے روکنے پر ہے۔‘‘

جرمن وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ روانہ

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک حماس کے جنوبی اسرائیل پر  حملے کے ٹھیک تین ماہ بعد اتوار کو برلن سے مشرق وسطیٰ کے اپنے ایک اور دورے پر  روانہ ہوئیں۔

اس موقع پر انہوں نےمشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اور سلامتی پر زور دیا۔ بیئربوک نے کہا، ''ہم سب محسوس کرتے ہیں کہ دہشت گردی کی اس کہانی کو آگے نہیں بڑھنے دینا چاہیے۔ دہشت گردی کو روکنا چاہیے۔ لوگوں کو درپیش انسانی المیوں کو روکنا چاہیے۔ خطے کو تشدد کے اس ابدی چکر سے نکلنا چاہیے۔‘‘

جرمن وزیر خارجہ اپنے دورے کے دوران مشرق وسطی میں قیام امن پر زور دیں گیتصویر: Alex Brandon/AP Photo/picture alliance

 بیئربوک نے مزید کہا کہ غزہ کو ''اب اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ انہوں نے حماس پر زور دیتے ہوئے کہ وہ ہتھیار ڈال دے۔ جرمن وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ امن کے قیام کے لیے غزہ اور مغربی کنارے کے لوگوں کو ''سلامتی، وقار اور خود ارادیت‘‘ کے ساتھ رہنے کا موقع درکار ہے اور غزہ کو بھی فوری طور پر مزید انسانی امداد کی ضرورت ہے۔

بیئربوک نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کو ''دہشت گردی کے خلاف اپنے دفاع‘‘ کا حق حاصل ہے، لیکن یہ فرض بھی ہے کہ وہ ''اپنی فوجی کارروائی میں شہریوں کی زیادہ بہتر حفاظت کرے۔‘‘

ش ر⁄ اا ( روئٹرز، اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں