1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

غزہ جنگ کے سائے میں بیت اللحم میں افسردہ کرسمس

25 دسمبر 2024

بیت اللحم میں یہ دوسری کرسمس ہے جو غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے سائے میں منائی گئی۔ سیاحوں اور زائرین نے شہر میں آمد تقریباً مکمل طور پر بند ہو گئی ہے اور معاشی صورتحال گزشتہ سال کے مقابلے مزید خراب دکھائی دیتی ہے۔

فلسطینی پولیس کرسمس کے موقع پر چرچ آف دی نیٹیویٹی کے پاس
فلسطینی پولیس کرسمس کے موقع پر چرچ آف دی نیٹیویٹی، جسے روایتی طور پر عیسیٰ مسیح کی جائے پیدائش سمجھا جاتا ہے، کے پاس قطار میں کھڑی ہےتصویر: AP Photo/Matias Delacroix/picture alliance

 

کرسمس کی مسیحی کہانی کے مطابق، عیسیٰ بیت اللحم کے ایک معمولی اصطبل میں پیدا ہوئے کیونکہ مقامی سرائے میں قیام کے لیے جگہ دستیاب نہیں تھی۔ تقریباً 2,000 سال بعد، اس وقت بیت اللحم کے اطراف میں واقع ہوٹلوں کے تقریباً تمام 5000 کمرے خالی پڑے ہیں۔

کرسمس کا تہوار جنگ کے سائے میں

سیاحوں کی کمی ہے، جو نہ صرف ہوٹلوں بلکہ مقامی دکانو‍ں کے لیے بھی ایک مسئلہ ہے۔ رمزی سبیلا چرچ آف دی نیٹیویٹی کے نزدیک ایک چھوٹا سا اسٹور چلاتے ہیں۔ انہیں اس سال چرچ کے دروازے سے گزرنے والے تقریباً ہر سیاح کا نام یاد ہے۔ وہ بتاتے ہیں، "چند ہفتے پہلے یہاں نائجیریا سے ایک مہمان آیا تھا۔"

وہ عام طور پر اور بالخصوص کرسمس کے دوران بہت مصروف ہوتے تھے۔ دنیا بھر سے مسیحی زائرین ان سے موبائل فون کے چارجر اور سیلفی اسٹکس خریدتے ہیں۔ لیکن جنگ کے دور میں، سب کچھ بدل گیا ہے۔ سبیلا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اب کبھی کبھار صرف چند مقامی لوگ آتے ہیں اور وہ عام طور پر سب سے سستی مصنوعات خریدتے ہیں۔ ان کے پاس پیسے بھی نہیں ہوتے"۔

بیت اللحم کے نیٹیویٹی اسکوائر پر صرف چند صحافی رپورٹنگ کے لیے آئے ہیںتصویر: Jan-Philipp Scholz/DW

مکین بیت المقدس چھوڑ رہے ہیں

غزہ کی پٹی میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے، اسرائیل کے زیر قبضہ مغربی کنارے، جہاں بیت المقدس واقع ہے، کی معیشت کو بڑے پیمانے پر مندی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کئی دہائیوں سے سیاحت شہر کی آمدن کا بنیادی ذریعہ رہا ہے لیکن مقامی ہوٹل ایسوسی ایشن کے مطابق، جنگ سے کچھ عرصہ پہلے کمروں کی بکنگ کی شرح تقریباً 80 فیصد سے کم ہو کر آج صرف 3 فیصد رہ گئی ہے۔

کرسمس کے موقع پر جرمن صدر کا خطاب اور اتحاد کی اپیل

چرچ آف دی نیٹیویٹی کے سامنے وسیع نیٹیویٹی اسکوائر بھی افسردگی میں ڈوبا نظر آرہا ہے۔ عام طور پر یہ‍اں سے بیت اللحم کے پورے پرانے قصبے میں، بلند آواز میں کرسمس موسیقی بجتی تھی۔ لیکن اس سال خاموشی ہے۔ کوئی کرسمس کیرول نہیں، کرسمس ٹری نہیں، کوئی سجاوٹ نہیں۔ صرف چند صحافی ہی اس افسوسناک واقعے کی رپورٹنگ کے لیے چوک پر موجود ہیں۔

یہ دوسرا سال ہے جب کرسمس پر اسرائیل اور حماس کی جنگ کا سایہ پڑا ہے۔ مقامی حکام کے مطابق، حالیہ مہینوں میں بیت اللحم سے تقریباً 500 خاندان ہجرت کر چکے ہیں - یہ ایک قابل ذکر تعداد ہے، کیونکہ آبادی صرف 30,000 کے لگ بھگ ہے۔ اور یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں۔ باقی رہ جانے والوں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ عارضی سیاحتی ویزے پر چلے گئے ہیں اور کسی بھی طرح کی ملازمتوں کے ساتھ بیرون ملک زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

بیت اللحم کے یونانی آرتھوڈوکس پادری عیسیٰ مصلح نے امن کی اپیل کی ہےتصویر: Jan-Philipp Scholz/DW

'پوری دنیا کے لیے پیغام'

لیکن بڑھتی ہوئی غربت کہانی کا صرف ایک حصہ ہے۔ غزہ کی پٹی میں دسیوں ہزار فلسطینی مارے جانے کے بعد سے یہاں کسی کا بھی جشن منانے کو دل نہیں کرتا۔ بیت اللحم میں یونانی آرتھوڈوکس پیٹریارکیٹ کے ایک پادری عیسیٰ مصلح بتاتے ہیں، "ہم اس سال خاموشی سے دعا کر رہے ہیں اور ہم پوری دنیا کو ایک پیغام بھیجنا چاہتے ہیں۔" انہوں نے کہا، "اس وقت غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔"

یسوع مسیح کی ولادت کے مقام کا چرچ عالمی ورثہ

بیت المقدس اور مغربی کنارے کے باقی حصوں میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے ماحول بہت زیادہ کشیدہ ہو گیا ہے۔ یہ ایک تناؤ ہے جس کو 50,000 یا اس سے زیادہ عیسائیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی مقبوضہ خطے میں مسلم اکثریت بھی محسوس کرتی ہے۔

یونانی آرتھوڈوکس پادری نے کہا کہ خاص طور پر اب کرسمس کے موقع پر، سب کو یاد رکھنا چاہیے کہ عیسیٰ بیت اللحم میں لوگوں کو امن کی طرف بلانے کے لیے پیدا ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کے مطابق مغربی کنارے میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 700 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسی عرصے میں تشدد میں 23 اسرائیلی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

ندیم نامی ایک ویٹرچرچ آف دی نیٹیویٹی کے سامنے قریبی پہاڑی کی چوٹی پر واقع اپنے خالی کیفے سے پورے علاقے پر چھائی افسردگی کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں، "ان حالات میں، خطے کے عیسائیوں کے لیے کرسمس کے پر امید پیغام پر یقین کرنا پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود بیت اللحم کے لوگوں نے طویل عرصے سے ثابت کیا ہے کہ پرامن بقائے باہمی ممکن ہے۔"

وہ مسلمان ہیں، لیکن ایک مسیحی یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں۔ جنگ سے پہلے، وہ اکثر اسرائیل کا سفر کرتے تھے، صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر، جہاں ان کے بہت سے یہودی دوست تھے۔ ندیم کہتے ہیں، "دراصل، ہم سب ایک ہی چیز چاہتے ہیں ایک سادہ پرسکون زندگی۔"

جنگ کے سائے میں کرسمس کے گیت

03:25

This browser does not support the video element.

ج ا ⁄ ص ز (جان فلپ اسکولز، بیت اللحم)

اصل مضمون جرمن زبان میں لکھا گیا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں