غزہ سٹی پر نئے اسرائیلی حملے: متعدد ہلاکتیں، درجنوں زخمی
27 جون 2024غزہ سٹی سے جمعرات 27 جون کو ملنے والی مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق ان تازہ اسرائیلی فوجی حملوں میں کم از کم سات افراد کی ہلاکت اور درجنوں دیگر کے زخمی ہو جانے کی غزہ میں سول ڈیفنس فورسز کے ساتھ ساتھ فلسطینی میڈیا نے بھی تصدیق کر دی ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ غزہ سٹی پر نئے اسرائیلی حملوں کی رپورٹوں کی غیر جانب دار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی تاہم جب اسرائیلی فوجی ذرائع سے اس بارے میں سوال کیا گیا، تو انہوں نے ان اطلاعات کی تصدیق کرنے سے معذوری ظاہر کر دی۔
اسرائیلی حملوں نے غزہ میں خاندانوں کے خاندان مٹا دیے
دوسری طرف ان حملوں سے پہلے اسرائیلی فوج نے غزہ سٹی کے مختلف علاقوں میں مقامی آبادی کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ وہاں سے نکل جائے۔ ایسا اکثر اسی وقت کیا جاتا ہے، جب کسی فلسطینی علاقے میں اسرائیلی فورسز عنقریب ہی اپنی مسلح کارروائیاں کرنے والی ہوں۔
اس بارے میں اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ سٹی کے شجاعیہ اور چند دیگر حصوں کے مقامی باشندوں اور وہاں پناہ لینے والے بے گھر فلسطینیوں کے لیے عربی زبان میں ایک پیغام آج جمعرات ہی کے روز اسرائیلی فوج کے ترجمان کی طرف سے جاری کیا گیا تھا۔
غزہ میں ہلاکتوں کی نئی مجموعی تعداد
غزہ پٹی کی حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق گزشتہ برس سات اکتوبر سے جاری غزہ کی جنگ میں اس خطے میں اب تک ہونے والی انسانی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد مزید بڑھ کر کم از کم بھی 37,765 ہو گئی ہے، جن میں بہت بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔
اس کے علاوہ غزہ پٹی میں ساڑھے نو ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے جاری اس جنگ میں اب تک غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 86,429 افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔
رفح آپریشن میں شدت اختتام کے قریب ہے، اسرائیلی وزیر اعظم
غزہ کی جنگ پچھلے سال سات اکتوبر کو جنوبیاسرائیل میں حماس کے جنگجوؤں کے اس دہشت گردانہ حملے کے ساتھ شروع ہوئی تھی، جس میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے اور واپس غزہ جاتے ہوئے حماس کے جنگجو تقریباﹰ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ ان اسرائیلی یرغمالیوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی غزہ پٹی کے علاقے میں حماس کے قبضے میں ہے۔
غزہ سے ڈیڑھ ماہ بعد شدید زخمی فلسطینی بچوں کا اولین انخلا
غزہ پٹی کے جنوبی شہر خان یونس سے جمعرات کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق غزہ کی جنگ میں شدید زخمی ہو جانے والے فلسطینی بچوں میں سے اکیس پر مشتمل ایک گروپ آج اس لیے غزہ کی سرحد پار کر رہا ہے کہ مصر پہنچائے جانے کے بعد وہاں ان انتہائی بیمار بچوں کا علاج کیا جا سکے۔
نیوز ایجنسی اے پی نے لکھا ہے کہ جنوبی غزہ میں رفح کی مصر کے ساتھ ملنے والی سرحد پر واقع رفح بارڈر کراسنگ کے مئی کے اوائل میں اسرائیلی فوج کی طرف سے کسی بھی طرح کی آمد و رفت کے لیے بند کیے جانے کے بعد سے زخمی فلسطینی بچوں کا اس محاصرہ شدہ پٹی سے انخلا ممکن نہیں رہا تھا۔
پوری غزہ پٹی میں قحط کا شدید خطرہ، عالمی ادارے کی تنبیہ
اب لیکن گزشتہ قریب ڈیڑھ ماہ سے زیادہ عرصے میں یہ پہلا موقع ہو گا کہ ایسے 21 فلسطینی بچے علاج کے لیے سرحد پار مصر پہنچائے جا سکیں گے، جن کی زندگیاں پہلے ہی شدید خطرے میں ہیں۔
رفع، خان یونس اور غزہ سٹی میں طبی ذرائع کے مطابق ایسے فلسطینی زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے، جنہیں علاج کی ضرورت ہے۔ ان میں سے بھی ایسے زخمی افراد کی تعداد سینکڑوں میں بنتی ہے، جن کی جانیں بچانے کے لیے انہیں فوراﹰ مکمل طبی سہولیات مہیا کی جانا چاہییں۔
رفح بارڈر کراسنگ اس وقت غزہ پٹی سے آنے جانے کے لیے واحد گزرگاہ ہے، لیکن اسے بھی اسرائیلی فوج نے کئی ہفتوں سے بند کر رکھا ہے۔ اس کے جواب میں مصری حکام نے اس کراسنگ کا اپنی طرف کا حصہ یہ کہہ کر بند کر دیا تھا کہ جب تک اس گزرگاہ کا فلسطینیوں کی طرف کھلنے والا راستہ اسرائیلی فوج دوبارہ فلسطینیوں کے کنٹرول میں نہیں دیتی، تب تک مصری حکام اپنی طرف کا راستہ بھی بند رکھیں گے۔
جنگ کے بعد غزہ کا انتظام
ان دنوں امریکہ کا دورہ کرنے والے اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلینٹ نے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں ایک تجویز پر غور کر رہے ہیں کہ جنگ کے بعد کے عرصے میں غزہ پٹی کا انتظام کیسے چلایا جانا چاہیے اور اس میں کون کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔
فوجی بھرتی سے متعلق عدالتی فیصلہ، نیتن یاہو حکومت کے لیے نیا خطرہ
یوآو گیلینٹ کے مطابق اس بارے میں وہ جس تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں، اس کے مطابق جنگ کے بعد غزہ پٹی کے انتظام میں مقامی فلسطینیوں کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے اور علاقائی شراکت داروں کے ساتھ ساتھ ممکنہ طور پر امریکہ کو بھی۔ تاہم گیلینٹ کے بقول اس کے لیے تفصیلات طے کرنا اور ان پر اتفاق رائے بہت پیچیدہ اور طویل عمل ہو گا۔
گیلینٹ نے کل بدھ کے روز اسرائیل اور لبنان کی حزب اللہ ملیشیا کے جنگجوؤں کے مابین لبنانی اسرائیلی سرحد پر ہونے والی جھڑپوں اور غزہ کی جنگ کے پھیل کر ایک علاقائی جنگ بن جانے کے خدشات کے تناظر میں کہا تھا کہ اسرائیل لبنان کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔
یوآو گیلینٹ کے الفاظ میں اسرائیل اپنے ہمسایہ ملک لبنان کو ''واپس پتھر کے دور میں بھیج‘‘ تو سکتا ہے، تاہم وہ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ وہ جنگ نہیں چاہتا۔
اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران یہ بات ایک ایسے وقت پر کہی جب اقوام متحدہ کے کئی ذیلی ادارے اور متعدد علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں اس خدشے کے خلاف مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ کوئی بھی بے احتیاطی کی گئی یا غلط اندازے لگائے گئے، تو غزہ کی جنگ اور لبنانی اسرائیلی سرحد پر مسلح جھڑپیں پھیل کر ایک علاقائی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
م م / ک م، ر ب (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز، اے ایف پی)