غزہ سے راکٹ داغنے پر اسرائیلی کارروائی، مزید 4 فلسطینی ہلاک
13 نومبر 2019
غزہ پٹی پر انتہا پسند فلسطینی تنظیم کے راکٹ داغنے کے جواب میں اسرائیلی فضائی حملے جاری ہیں۔ بدھ تیرہ نومبر کو مزید چار عسکریت پسندوں کی ہلاکت کے بعد مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد سولہ ہوگئی ہے۔
اشتہار
فلسطینی علاقے غزہ پٹی سے ایک انتہا پسند عسکریت پسند تنظیم نے اسرائیلی سرزمین پر راکٹ فائر کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس کے جواب میں اسرائیلی کارروائیاں بھی ہیں۔ آج بدھ کو بھی اسرائیلی حملوں میں مزید چار فلسطینی عسکریت پسندوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ غزہ کے محکمہ صحت نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔
اس طرح منگل سے اب تک غزہ پٹی میں ہونے والی ہلاکتیں سولہ تک پہنچ گئی ہیں۔ اس کشیدہ صورت حال کو گزشتہ پانچ برسوں میں ہونے والے انتہائی سنگین اور خونی واقعات میں شمار کیا گیا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اگر حالات میں سدھار پیدا نہ ہوا تو جنگ زدہ حالات میں شدید بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔
دوسری جانب 'اسلامی جہاد‘ نامی تنظیم کے راکٹ داغنے کا سلسلہ منگل بارہ نومبر سے جاری ہے اور اب تک دو سو کے قریب راکٹ داغے جا چکے ہیں۔ اسرائیل میں بظاہر ان راکٹوں سے کسی جانی و مالی نقصان کو رپورٹ نہیں کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز جوابی اسرائیلی فضائی حملوں میں آٹھ فلسطینیوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔
یہ راکٹ اسلامی جہاد نامی عسکریت پسند تنظیم نے اُس اسرائیلی حملے کے جواب میں داغنا شروع کیے ہیں ، جس میں اُس کے اہم کمانڈر بہا ابو العطا کی موت ہوئی تھی۔ اس تنظیم نے اپنے لیڈر کی ہلاکت کو اسرائیل کی جانب سے جنگ نافذ کرنا قرار دیا ہے۔ عسکری تنظیم کی جانب سے اپنے کمانڈر کی ہلاکت کے بعد جوابی انتقامی کارروائی شروع کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
بیالیس سالہ ابوالعطا مضبوط تنظیم اسلامی جہاد کے عسکری ونگ القدس بریگیڈز کے سربراہ تھے۔ اُن کو ٹارگٹ کر کے اسرائیلی حملے میں ہلاک کیا گیا۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے ابو العطا کو کسی بھی وقت پھٹ جانے والا ایک بم قرار دیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ منگل ہی کو ابو العطا کی ٹارگٹ کلنگ کے علاوہ اسرائیل نے شامی دارالحکومت دمشق میں بھی ایک رہائشی عمارت کو نشانہ بنا کر چھ افراد کو مار دیا تھا۔ اس حملے میں اسرائیل کا نشانہ اسلامی جہاد کے ایک اور رہنما اکرم العجوری تھے جو ہلاک ہونے سے بچ گئے ہیں۔ العجوری کا تعلق بھی القدس بریگیڈز سے ہے۔ دمشق میں کیے گئے حملے میں العجوری کا بیٹا ضرور مارا گیا ہے۔
ع ح ⁄ ع ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔