1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

بلنکن مشرق وسطیٰ کے دورے پر، اسرائیلی قیادت سے ملاقاتیں

19 اگست 2024

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ کی نیتن یاہو سے ملاقات کو ’’مثبت‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ اکتوبر میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد سے بلنکن کا یہ خطے کا نوواں دورہ ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ کی نیتن یاہو سے ملاقات کو ’’مثبت‘‘ قرار دیا گیا
اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں امریکی وزیر خارجہ کی نیتن یاہو سے ملاقات کو ’’مثبت‘‘ قرار دیا تصویر: Chaim Zach/Israeli Government Press Office/dpa/picture alliance

امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے مشرق وسطیٰ کے اپنے تازہ ترین دورے پر آج پیر کے روز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے ون آن ون ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں اس ملاقات کو ’’مثبت‘‘ قرار دیا گیا۔ اس بیان میں مزید کہا گیا، ’’وزیراعظم نے اسرائیل کی سلامتی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے، جس پر وہ مضبوطی سے اصرار کرتے ہیں، ہمارے یرغمالیوں کی رہائی کے بارے میں تازہ ترین امریکی تجویز سے متعلق اسرائیل کے عزم کا اعادہ کیا۔‘‘
 بلنکن مصر روانگی سے قبل اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ سے بھی ملاقات کریں گے۔ اس سے قبل انٹونی بلنکن نے پیر کے روز اسرائیل اور حماس پر زور دیا کہ وہ  غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے سلسلے میں مذاکرات کو پٹڑی سے نہ اترنے دیں، جو اس اعلیٰ امریکی سفارت کار کے مطابق قیام امن کے لیے ''آخری موقع‘‘ ہو سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ حماس کے سات اکتوبر کو اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے اس خطے کے اپنے نوویں دورے پر اس وقت تل ابیب میں ہیں۔

بلنکن نے پیر کے روز اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ سے بھی ملاقات کی تصویر: Kevin Mohatt/REUTERS

بلنکن نے پیر کے روز کہا کہ وہ تل ابیب اس لیے واپس آئے ہیں کہ ''اس معاہدے کو راستے پر لاتے ہوئے بالآخر اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔‘‘ بلنکن نے اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ سے ملاقات کے دوران کہا، ''یہ فیصلہ کن، غالباً بہترین اور شاید آخری موقع ہے کہ یرغمالیوں کو گھر پہنچایا جائے، جنگ بندی کی جائے اور سب کو پائیدار امن و سلامتی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔‘‘

امریکی وزیر خارجہ آج پیر ہی کے روز قاہرہ جائیں گے۔ قاہرہ میں اس ہفتے جنگ بندی کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی امید ہے۔ اسرائیل اور حماس نے جنگ بندی معاہدے تک پہنچنے میں تاخیر کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ سفارت کاروں کا کہنا ہے اس معاہدے کے طے پا جانے کی صورت میں مشرق وسطیٰ میں وسیع تر انتشار کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

انٹونی بلنکن کا مزید کہنا تھا، ''ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ کشیدگی میں اضافہ نہ ہو، کوئی اشتعال انگیزی نہ ہو اور یہ کہ ایسی کارروائیاں بھی نہ ہوں، جو کسی بھی طرح سے ہمیں اس معاہدے کے راستے سے بھٹکا دیں یا اس تنازعے کو دوسری جگہوں پر اور زیادہ شدت سے بھڑکا دیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''یہ معاہدہ مکمل کرنے کا وقت ہے۔ یہ اس بات کو بھی یقینی بنانے کا وقت ہے کہ کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے، جس سے اس عمل کو پٹڑی سے اتارا جا سکے۔‘‘

امریکی، قطری اور مصری ثالثوں کی مدد سے کئی مہینوں تک جاری رہنے والے یہ مذاکرات کسی معاہدے کے حصول میں تاحال ناکام رہے ہیں۔  لیکن جولائی کے آخر میں حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل اور ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ کے عسکریت پسند رہنماؤں کی ہلاکتوں کے بعد اور محصور غزہ پٹی میں انسانی بحران مزید گہرا ہونے کے بعد سے امن معاہدے کا حصول داؤ پر لگا ہوا ہے۔

گزشتہ ہفتے قطر میں ہونے والے مذاکرات سے قبل حماس نے مزید مذاکرات کرنے کے بجائے ثالثوں سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مئی کے آخر میں امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان کردہ فریم ورک پر عمل درآمد کریں۔ امریکی صدر بائیڈن نے اتوار کے روز کہا کہ جنگ بندی ''اب بھی ممکن ہے‘‘ اور یہ کہ امریکہ ''ہار نہیں مان رہا۔‘‘

غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی مہم میں اب تک کم از کم 40,139 افراد ہلاک ہو چکے ہیںتصویر: Bashar Taleb/AFP/Getty Images

ثالثوں کے بقول قطر منعقدہ اجلاس کے بعد امریکہ نے ایک ''جوڑنے والی تجویز‘‘ پیش کی تھی، جسے حماس نے اتوار کے روز کہا تھا کہ یہ ''نیتن یاہو کی شرائط کا جواب ہے‘‘ اور اس میں ایسی شقیں شامل ہیں، جنہیں یہ فلسطینی تنظیم قبول نہیں کرے گی۔ حماس نے ''مستقل جنگ بندی اور غزہ پٹی سے جامع انخلا‘‘ پر اصرار کیا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو اسرائیلی افواج کو نیٹزارم جنکشن، رفح کراسنگ اور فلاڈیلفی کوریڈور جیسے کئی اسٹریٹیجک مقامات پر تعینات رکھنا چاہتے ہیں۔

اسرائیلی صدرکا کہنا ہے کہ اسرائیلی عوام غزہ میں ابھی تک زیر حراست یرغمالیوں کی ''جلد از جلد‘‘ واپسی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ ''اس موقع کو ضائع نہ کریں‘‘ اور ''انہیں (یرغمالیوں کو) واپس لائیں۔‘‘

غزہ کی جنگ کا آغاز گزشتہ برس سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر کیے گئے حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں بارہ سو کے قریب افراد کی ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ حماس کے حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے 251 میں سے 111 اب بھی غزہ میں قید ہیں، جبکہ 39 ہلاک ہو چکے ہیں۔ نومبر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران 100 سے زیادہ یرغمالیوں کو رہا کرا لیا گیا تھا۔

دوسری جانب غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی مہم میں اب تک کم از کم 40,139 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ فلسطینی ہلاکتوں سے متعلق یہ اعداد و شمار غزہ میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں، جن میں شہریوں اور عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی علیحدہ علیحدہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔

ش ر⁄ ا ا، م م (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

02:23

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں