1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رفح پر اسرائیلی حملے میں کم از کم 27 فلسطینی ہلاک

29 اپریل 2024

مغربی اور عرب حکام غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے رہائی کے لیے معاہدے پر پیشرفت کا جائزہ لینے کے لیے سعودی عرب میں ملاقات کر رہے ہیں۔ سات ماہ سے جاری یہ جنگ اب تک 34 ہزار فلسطینیوں کی جان لے چکی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور دیگر عرب حکام
تصویر: Evelyn Hockstein/REUTERS

عسکریت پسند فلسطینی گروپ حماس کی طرف سے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل کے اندر کیے جانے والے حملے کے بعد شروع ہونے والی اس جنگ کو قریب سات ماہ گزر چکے ہیں۔ حماس کے اس حملے میں قریب 1200 افراد مارے گئے تھے جبکہ 253 کو یرغمالی بنا کر غزہ لے جایا گیا تھا۔ امریکہ اور یورپی یونین سمیت متعدد ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے برطانوی فوج خدمات فراہم کر سکتی ہے، رپورٹ

غزہ پالیسی: امریکی محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان مستعفٰی

حماس کے اس حملے کے بعد سے اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی کے اندر کیے جانے والے زمینی اور فضائی حملوں میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک  34 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔

اس جنگ میں سیز فائر اور ایک امن معاہدے تک پہنچنے کے لیے امریکہ، مصر اور قطر رواں برس جنوری سے کوششوں میں مصروف ہیں جن میں کئی ایک دیگر ممالک بھی شریک ہیں۔

اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی کے اندر کیے جانے والے زمینی اور فضائی حملوں میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک  34 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔تصویر: Ali Jadallah/Anadolu/picture alliance

ایسی ہی کوششوں کے نتیجے میں گزشتہ برس نومبر میں ایک ہفتے کی جنگ بندی ہوئی تھی جس میں حماس کی طرف سے 100 سے زائد یرغمالیوں کو رہا کیا گیا جبکہ اسرائیل کی طرف سے اس سے تین گنا زیادہ فلسطینیوں کو رہا کیا گیا۔

جنگ بندی معاہدے میں کتنا وقت لگے گا؟

فرانسیسی وزیر خارجہ اسٹیفان سیژورنی کے مطابق عرب اور مغربی ممالک کے وزرا کے ساتھ ریاض میں طے شدہ ملاقات سے قبل بات چیت آگے بڑھ رہی تھی۔

دوسری طرف حماس کا ایک وفد قاہرہ میں ہے تاکہ تازہ ترین جنگ بندی کی تجاویز اور اس پر اسرائیل کے ردعمل پر بات چیت کی جا سکے۔

لیکن عوامی طور پر جاری کیے جانے والے بیانات کے مطابق فریقین سب سے اہم معاملے پر بین الاقوامی دباؤ کے باجود کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچے۔

جنگ بندی میں سب سے بڑی رکاوٹ

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاملے پر سب سے بڑی رکاوٹ اس کی شرائط ہیں۔

اسرائیل کہہ چکا ہے کہ وہ یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کے دوران عارضی طور پر لڑائی روکے گا۔ جبکہ نیتن یاہو نے عزم کیا ہوا ہے کہ وہ رفح پر حملے سمیت اس وقت تک فوجی کارروائی نہیں روکیں گے جب تک حماس پر 'مکمل فتح‘  حاصل نہیں کر لیتے۔

اسرائیل غیر معینہ مدت کے لیے غزہ پر اسرائیلی کنٹرول چاہتا ہے جس کے تحت اسرائیلی فورسز کسی بھی وقت غزہ میں واپس لوٹ سکتی ہیں۔تصویر: Shadi Tabatibi/REUTERS

اس کے علاوہ وہ غیر معینہ مدت کے لیے غزہ پر اسرائیلی کنٹرول پر بھی مصر ہیں جس کے تحت اسرائیلی فورسز کسی بھی وقت غزہ میں واپس لوٹ سکتی ہیں۔

حماس کا تاہم کہنا ہے کہ وہ محض اسی صورت میں معاہدہ تسلیم کرے گی جب کسی عارضی معاہدے کی بجائے مستقل جنگ بندی ہو، جس سے جنگ کا خاتمہ ہو اور جس میں اسرائیلی فوجیوں کی غزہ کی مستقل واپسی ہو۔

رفح پر اسرائیلی حملہ، مزید ہلاکتیں

ادھر غزہ پٹی کے شمالی حصے میں رفح شہر میں کیے جانے والے اسرائیل کے ایک تازہ حملے میں کم از کم 27 فلسطینی مارے گئے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اس سرحدی شہر پر اتوار اور پیر کی درمیانی شب رہائشی عمارتوں پر کیے جانے والے حملوں میں 20 افراد ہلاک ہوئے۔ رفح ہی میں آج پیر کو دن کے وقت کیے جانے والے ایک اور اسرائیلی حملے میں ایک ہی خاندان کے سات افراد کی ہلاکت کا بھی بتایا گیا ہے۔

اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان کے مطابق وہ مذکورہ مقامات کے درست کوآرڈینٹس کی عدم موجودگی میں ان ہلاکتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔

غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچانا مشکل کیوں؟

01:48

This browser does not support the video element.

ا ب ا/ش ر - ر ب (ڈی پی اے، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں