غزہ میں حماس کا تختہ الٹا جا سکتا ہے، اسرائیلی وزیر
12 اگست 2018
ایک سینیئر اسرائیلی وزیر نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ پٹی سے حماس کا انتظام ختم کرنے کے آپشن کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اور راستہ باقی نہ رہا، تو اسرائیل غزہ میں حماس کی حکومت ختم کر دے گا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اسرائیلی وزیر یووال اسٹائنِٹس کے حوالے سے اتوار کے دن بتایا ہے کہ اسرائیلی حکومت غزہ پٹی میں حماس کا کنٹرول ختم کرنے کے آپشن کے انتہائی قریب پہنچ چکی ہے۔
اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کے سینیئر ممبر اسٹائنِٹس کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب گزشتہ ہفتے اسرائیلی سرحد کے قریب غزہ پٹی کے علاقے میں فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے درمیان شدید جھڑپیں دیکھی گئیں۔ یووال اسٹائنِٹس کے پاس توانائی کی وزارت کا قلمدان بھی ہے۔
اسٹائنِٹس نے کہا کہ اسرائیل غزہ میں ایک مکمل جنگ شروع کرنے کے حق میں نہیں ہے تاہم ماضی میں اسرائیلی حکومت غزہ میں حماس کا تختہ الٹنے کے آپشن کے اتنے قریب کبھی نھی نہیں آئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اور راستہ نہ ملا تو یہ کیا بھی جا سکتا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ایک سیز فائر معاہدہ طے پا چکا ہے، تاہم اسرائیلی حکومت اب تک ایسے کسی بھی معاہدے سے انکاری ہے۔ اسٹائنِٹس نے واضح کیا ہے کہ حماس کے ساتھ جنگ بندی کی ڈیل نہیں ہوئی ہے۔
غزہ پٹی میں نئی کشیدگی تیس مارچ کو اس وقت پیدا ہوئی تھی، جب فلسطینی مظاہرین نے ہفتہ وار احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں ہونی والی جھڑپوں کے نتیجے میں 160 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ایک اسرائیلی فوجی فسطینی نشانچی کا نشانہ بنا ہے۔
حماس نے سن دو ہزار سات میں غزہ پٹی کا انتظام سنبھالا تھا، جس کے بعد سے اب تک اس جنگجو گروہ اور اسرائیل کے مابین تین باقاعدہ جنگیں ہو چکی ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ مصر کی ثالثی میں ایک طویل المدتی سیز فائر کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے واضح کیا ہے کہ حماس کی طرف سے مکمل جنگ بندی کے بغیر اس جنگجو گروہ سے کوئی ڈیل نہیں کی جا سکتی ہے۔
اتوار کے دن کابینہ کی میٹنگ سے قبل نیتن یاہو نے کہا کہ ’ہمارا مطالبہ واضح ہے۔ مکمل جنگ بندی۔ اس سے کم پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔
دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم کی کابینہ میں شامل کٹر نظریات کے حامل سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کو غزہ پٹی میں موجود حماس کے جنگجوؤں کے خلاف زیادہ سخت موقف اختیار کرنا چاہیے۔
گزشتہ ہفتے کے دوران غزہ پٹی سے حماس نے اسرائیل پر 180 راکٹ فائر کیے تھے، جس کے جواب میں اسرائیلی دفاعی افواج نے حماس کے ٹھکانوں پر متعدد فضائی حملے کیے تھے۔ اس اسرائیلی کارروائی کی وجہ سے تین فلسطینی مارے بھی گئے تھے۔
ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔