1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتاسرائیل

غزہ میں سرنگوں کا ایک اور وسیع تر نیٹ ورک دریافت

11 جنوری 2024

امریکی وزیر خارجہ کی کوشش ہے کہ اسرائیل اور حماس کے مابین جاری لڑائی خطے کو اپنی لپیٹ میں نہ لے۔ ادھر اسرائیلی دفاعی افواج نے شمالی غزہ میں زیر زمین سرنگوں کا ایک بڑا نیٹ ورک دریافت کر لیا ہے۔

ISRAEL-LEBANON-PALESTINIAN-CONFLICT
تصویر: Jalaa Marey/AFP/Getty Images

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اپنے دورہ مشرق وسطیٰ کی آخری منزل قاہرہ پہنچ گئے ہیں۔ ان کے اس طوفانی دورے کا مقصد دراصل اسرائیل اور حماس کے مابین جاری مسلح تنازعے کو علاقائی سطح تک پھیلنے سے روکنا بتایا جا رہا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا دورہ مصر انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مصر اسرائیل کے ساتھ ثالثی میں ایک اہم ملک قرار دیا جاتا ہے۔ ماضی میں بھی مصر کی کوششوں کی وجہ سے اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین ڈیلز ہو چکی ہیں۔

موجودہ صورتحال میں کشیدگی کو کم کرنے کی خاطر امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے قاہرہ میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کی ہے۔ ذرائع کے مطابق اس دوران مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی کوششوں پر توجہ مرکوز کی گئی۔ تاہم میڈیا پر اس ملاقات کے بارے میں ابھی تک کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا۔

امریکی وزیر خارجہ بلنکن ایک ایسے وقت پر یہ دورہ کر رہے ہیں، جب ایک طرف غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں کی وجہ سے انسانی بحرانی المیہ شدید ہو چکا ہے تو دوسری طرف لبنان اور اسرائیل کی سرحدوں پر بھی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔

لبنانی حزب اللہ ملیشیا نے بھی اسرائیل پر حملے کیے ہیں، جن کے جواب میں اسرائیلی دفاعی افواج نے اس ایران نواز جنگجو گروہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے بھی رواں ہفتے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران بیروت میں لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی سے ملاقات کی تھی۔ ان کی کوشش بھی یہی ہے کہ اسرائیل اور حماس کے مابین یہ مسلح تنازعہ خطے کے دیگر ممالک کو اپنی لپیٹ میں نہ لے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا دورہ مصر انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہےتصویر: ABIR SULTAN/AFP

دوسری طرف یمن کے وسیع تر علاقوں پر قابض حوثی باغی بھی بحیرہ احمر کے اہم تجارتی روٹ پر کارگو بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رواں ہفتے ہی ان باغیوں نے کئی حملے کیے تھے، جنہیں برطانوی اور امریکی بحریی افواج نے ناکام بنا دیا تھا۔

حوثی باغیوں کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انہیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔ ان شیعہ باغیوں کا کہنا ہے کہ یہ حملے غزہ پٹی میں اسرائیلی حملوں کے جواب میں کیے جا رہے ہیں۔ تاہم کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قزاق دراصل اس تنازعے کو ہوا دیتے ہوئے اپنے سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔

دریں اثنا اسرائیلی دفاعی افواج غزہ پٹی میں اپنی عسکری کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں حماس کے فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے اسرائیلی سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیلی افواج نے غزہ پٹی میں ان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔ اس حملے میں تقریباﹰ ساڑھے گیارہ سو اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے جکہ حماس نے دو سو چالیس کے قریب افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔

ادھر غزہ پٹی میں حماس کے طبی ذرائع کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر سے شروع ہونے والے اس تنازعے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد تیئیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ ہلاک شدگان میں کتنے جنگجو شامل ہیں۔

اسرائیلی دفاعی افواج نے جمعرات کے دن کہا کہ شمالی غزہ  میں سرنگوں کا ایک بڑا نیٹ ورک دریافت ہوا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی سپاہی زیرزمین سرنگوں کے اس نیٹ ورک کو تباہ کرنے کا آپریشن جاری رکھیں گے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ناکہ بندی کے شکار غزہ پٹی کے علاقے میں حماس کے جنگجوؤں کی طرف سے بنائی گئی یہ سرنگیں اسلحہ اسمگل کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

ادھر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے دہرایا ہے کہ غزہ میں جاری کارروائی بین الاقوامی جنگی قوانین کے تحت کی جا رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل غزہ پٹی پر قبضہ کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا اور اس علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا۔

اسرائیلی وزیر اعظم کے بقول ان کی حکومت کا مقصد صرف حماس کے جنگجوؤں کو غیر مسلح کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب غزہ پٹی سے ان جنگجوؤں کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور اسرائیلی یرغمالیوں کو ان ’دہشت گردوں‘ کی قید سے آزاد کرا لیا جائے گا تو اسرائیلی فورسز غزہ پٹی سے واپس بلا لی جائیں گی۔

ع ب / ک م، م م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)

غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کی زمینی کاررائیوں میں اضافہ

02:30

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں