1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمقبوضہ فلسطینی علاقے

غزہ میں طبی بحران پر امریکی کارکنوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

7 جولائی 2024

کئی ماہ کی جنگ سے تباہ شدہ غزہ پٹی کے تاحال کسی حد تک فعال اور بچے کھچے ہسپتالوں میں بھی صورت حال انتہائی المناک ہے۔ امریکی طبی کارکنوں کے بقول وہاں بالغ اور نابالغ مریض پٹیاں اور صابن تک نہ ہونے کے باعث بھی مر رہے ہیں۔

غزہ پٹی کے شہر خان یونس کے ایک ہسپتال میں ایک ڈاکٹر ایک اسرائیلی فضائی حملے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کو فوری طبی امداد فراہم کرتے ہوئے
غزہ پٹی کے شہر خان یونس کے ایک ہسپتال میں ایک ڈاکٹر ایک اسرائیلی فضائی حملے میں زخمی ہونے والے ایک شخص کو فوری طبی امداد فراہم کرتے ہوئےتصویر: Hatem Ali/AP Photo/picture alliance

گزشتہ برس سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل میں ایک بڑے دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد شروع ہونے والی جنگ میں اب تک غزہ پٹی میں وزارت صحت کے مطابق نہ صرف تقریباﹰ 38 ہزار انسان ہلاک ہو چکے ہیں بلکہ زخمیوں کی تعداد بھی 86 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ ہلاک شدگان اور زخمیوں میں بہت بڑی تعداد فلسطینی خواتین اور بچوں کی بتائی جاتی ہے۔

غزہ کے ہسپتالوں میں ہلاکتیں، اقوام متحدہ کا تفتیش کا مطالبہ

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق غزہ کی جنگ میں زخمی ہونے والوں کو جب اس بہت گنجان آباد فلسطینی علاقے کے تاحال کام کرنے والے چند ہسپتالوں میں لایا جاتا ہے، تو وہاں کی بحرانی صورت حال اتنی پریشان کن ہے کہ جو بالغ اور بچے جنگ میں نہیں مرتے، وہ مناسب طبی ساز و سامان اور مرہم پٹی کے لیے درکار بہت معمولی اشیاء کے نہ ہونے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

طبی امدادی کارکنوں کی بےبسی

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ غزہ پٹی کے جو ہسپتال ابھی تک کسی نہ کسی طرح کچھ حد تک کام کر رہے ہیں، وہاں بھی ڈاکٹروں اور طبی امدادی کارکنوں کو ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں، جو ان کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

غزہ سٹی کے ایک ہسپتال کے فرش پر مریض، اور ان کے رشتہ دار ان کی تیمار داری کرتے ہوئےتصویر: Mahmoud Essa/AP Photo/picture alliance

مثال کے طور پر ایک سات سالہ فلسطینی بچہ ایک دھماکے میں شدید زخمی ہو گیا اور اس کا جسم بری طرح جل گیا تھا۔ لیکن طبی امدادی کارکنوں کو اس کی جان بچانے کی کوششیں اور امید اس لیے ترک کرنا پڑ گئی کہ ان کے پاس اس بچے کے زخموں پر باندھنے کے لیے کافی پٹیاں بھی نہیں تھیں۔

اس بچے کا جسم اس حد تک جل چکا تھا کہ اس کی زندگی شاید بچائی ہی نہیں جا سکتی تھی۔ لیکن میڈیکل ورکرز کی مجبوری یہ تھی کہ وہ اس کے زخموں کی مرہم پٹی بھی نہ کر سکے۔

اسرائیلی فوج کا الشفا ہسپتال سے انخلا، آپریشن ’کامیاب‘ رہا

اس کے علاوہ کئی زخمی مریض اس لیے بھی جان دے دیتے ہیں کہ ان کے جسم میں اس وجہ سے انفیکشن پھیل جاتی ہے کہ طبی عملے کے پاس حفظان صحت کا بنیادی سامان حتیٰ کہ کبھی کبھی صابن تک نہیں ہوتا۔

ان اور ایسے بہت سے دیگر المناک واقعات کی تفصیلات ان امریکی ڈاکٹروں اور نرسوں نے بیان کی ہیں، جو غزہ پٹی کے محاصرہ شدہ ساحلی علاقے میں ایک امدادی مشن کے بعد ابھی حال ہی میں واپس امریکہ پہنچے۔

غزہ پٹی کے اب تک فعال ہسپتالوں میں طبی امدادی سامان کی شدید کمی ہےتصویر: Mahmoud Essa/AP/picture alliance

غزہ میں امداد کی ترسیل کی اجازت ناگزیر

ان امریکی طبی کارکنوں نے اب ایک باقاعدہ مہم شروع کر دی ہے کہ وہ دنیا کو بتائیں کہ غزہ پٹی کے بحران زدہ طبی شعبے کی حقیقی صورت حال کیسی ہے، اس لیے کہ ان کے بقول اسرائیل پر دباؤ ڈالا جانا چاہیے کہ وہ اس فلسطینی خطے میں انسانی جانوں کو بچانے میں مدد دینے والے زیادہ سے زیادہ طبی امدادی سامان کی ترسیل کی اجازت دے۔

امریکی فوج میں جنگی خدمات انجام دینے والے ایک سابق سرجن آدم حموی غزہ پٹی کے یورپی ہسپتال میں ایک طبی مشن کے دوران فرائض انجام دینے کے بعد ابھی حال ہی میں واپس امریکی ریاست نیو جرسی لوٹے۔

جنگ زدہ غزہ پٹی میں انسانی بحران کی تازہ ترین صورت حال

انہوں نے اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''اس بات سے قطع نظر کہ غزہ کی جنگ میں کوئی فائر بندی ہوتی ہے یا نہیں، ہمیں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر وہاں امداد تو لازمی پہنچانا ہی چاہیے۔ اور وہاں خاص طور پر طبی امدادی سامان کی طلب جتنی زیادہ ہے، اس کے مطابق ہی یہ سامان وہاں پہنچنا چاہیے۔‘‘

ڈاکٹر آدم حموی بنیادی طور پر انسانی جسم کے خراب یا مسخ شدہ حصوں کی بحالی کے ماہر پلاسٹک سرجن ہیں۔ انہوں نے کہا، ''آپ جو کچھ بھی چاہیں عطیہ کر دیں، لیکن اگر غزہ پٹی کی سرحدیں بند ہی رہیں گی اور امداد اس جنگ زدہ علاقے تک پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، تو تمام کوششیں بیکار ہیں۔‘‘

غزہ کی جنگ میں ایک فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے پچیس فلسطینیوں میں سے کئی کے لواحقین ایک ہسپتال کے باہر روتے ہوئےتصویر: Jehad Alshrafi/Anadolu/picture alliance

موجودہ صورت حال کا سیاسی نظریات سے کیا تعلق؟

اس وقت 54 سالہ آدم حموی گزشتہ 30 برسوں سے مختلف جنگ زدہ اور قدرتی آفات کے شکار خطوں اور ممالک میں رضا کارانہ طور پر فرائض انجام دیتے آ رہے ہیں۔

انہوں نے بوسنیا کی جنگ کے دوران ساراژیوو کے محاصرے کے دوران بھی اس شہر میں خدمات انجام دیں اور ہیٹی میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے فوری بعد بحیرہ کریبیین کی اس ریاست میں بھی۔

غزہ کے النصر ہسپتال میں آکسیجن ختم ہونے سے چار مریض ہلاک

حموی نے جنگ کے دوران غزہ پٹی میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے بتایا، ''میں نے وہاں شہری ہلاکتوں اور زخمیوں کی جس تعداد اور تناسب کا مشاہدہ کیا، وہ پچھلے کئی عشروں میں کبھی میرے مشاہدے میں نہیں آئے تھے۔‘‘

غزہ پٹی میں اب کم ہی ہسپتال ایسے ہیں جو جنگ کے باوجود کام کر رہے ہیںتصویر: Karam Hassan/Anadolu/picture alliance

غزہ کے ہسپتال زخمیوں کی بڑھتی تعداد کا بوجھ اٹھانے سے قاصر، ڈبلیو ایچ او

ڈاکٹر آدم حموی نے زور دے کر کہا، ''غزہ میں میرے مریض زیادہ تر 14 برس سے کم عمر کے بچے تھے۔ ان بچوں کا بھلا کسی کے بھی سیاسی نظریات سے کیا تعلق؟ میری رائے میں جو کام ہم نے غزہ میں کیا، وہ بھی بہت اہم تھا۔ لیکن دنیا کو یہ بتانا بھی اتنا ہی اہم ہے کہ اس وقت غزہ میں طبی شعبے کا بحران کتنا شدید ہو چکا ہے۔‘‘

م م / ک م، ر ب (اے ایف پی، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں