غزہ میں فلسطینیوں کی ہلاکتیں: جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس
9 جون 2018
غزہ پٹی اور اسرائیل کی سرحد پر حالیہ ہفتوں میں قریب سوا سو فلسطینی مظاہرین کی ہلاکت کے تناظر میں فلسطینیوں اور ان کے اتحادیوں کی درخواست پر بدھ تیرہ جون کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا ایک ہنگامی اجلاس بلا لیا گیا ہے۔
اشتہار
فلسطینی خود مختار علاقوں میں غزہ پٹی کے شہر غزہ سٹی سے ہفتہ نو جون کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اس سلسلے میں جنرل اسمبلی کے صدر میروسلاو لائٹشاک نے جمعہ آٹھ جون کی رات یہ باضابطہ خط جاری کر دیا کہ غزہ پٹی کی صورت حال سے متعلق جنرل اسمبلی کا ایک ہنگامی اجلاس آئندہ بدھ کے روز مقامی وقت کے مطابق سہ پہر تین بجے ہو گا۔
جنرل اسمبلی کا یہ ہنگامی اجلاس بلانے کے لیے فلسطینیوں اور ان کی اتحادی عرب ریاستوں کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ غزہ میں بیسیوں فلسطینی مظاہرین کی ہلاکتوں ہی کے تناظر میں گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بھی ایک اجلاس ہوا تھا۔
اس اجلاس میں جس مسودے پر رائے شماری ہوئی تھی، وہ کویت کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ اس مسودے میں حالیہ ہفتوں کے دوران اسرائیلی دستوں کی فائرنگ اور آنسو گیس کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے سو سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت اور ہزاروں دیگر کے زخمی ہو جانے کی مذمت کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ غزہ پٹی کی فلسطینی آبادی کے تحفظ کے لیے کوئی طریقہ کار طے کیا جائے۔
اس قرارداد کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک کی اکثریت نے تو حمایت کر دی تھی تاہم امریکا نے اسے ویٹو کر دیا تھا۔ تب اس عالمی ادارے میں امریکی خاتون سفیر نکی ہیلی نے ویٹو کی جانے والی قرارداد کو ’انتہائی یکطرفہ‘ قرار دیا تھا۔
اب غزہ پٹی کی اسرائیل کے ساتھ سرحد پر 30 مارچ سے لے کر اب تک کے عرصے میں مجموعی طور پر 124 فلسطینیوں کی ہلاکت اور ہزاروں فلسطینی مظاہرین کے زخمی ہو جانے کے تناظر میں تیرہ جون کو جنرل اسمبلی کا جو اجلاس ہو گا، اس میں اور سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایک فرق بہرحال ضرور ہو گا۔
وہ فرق یہ ہو گا کہ سلامتی کونسل کی منظور کردہ کسی بھی قرارداد پر عمل درآمد قانوناﹰ لازمی ہوتا ہے جبکہ جنرل اسمبلی کی منظورہ کردہ کسی بھی قرارداد کی اخلاقی اہمیت تو بہت زیادہ ہوتی ہے تاہم اس پر عمل درآمد قانوناﹰ لازمی نہیں ہوتا۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ جنرل اسمبلی میں غزہ میں فلسطینی ہلاکتوں سے متعلق جس قراداد پر رائے شماری متوقع ہے، اس کا متن بھی تقریباﹰ ویسا ہی ہو گا جیسا سلامتی کونسل میں رائے شماری کے لیے پیش کیا گیا تھا، اور جسے امریکا نے ویٹو کر دیا تھا۔
جنرل اسمبلی میں منظوری کے لیے جو مسودہ قرارداد جع کرایا گیا ہے، اس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں قرارداد کی منظوری کے بعد ساٹھ دنوں کے اندر اندر ایسے انتظامات کے لیے سفارشات مرتب کریں، جن کی مدد سے فلسطینیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ ان انتظامات میں فلسطینیوں کے لیے عالمی ادارے کے ایک بین الاقوامی حفاظتی مشن کا قیام بھی شامل ہے۔
م م / ش ح / ڈی پی اے
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔