غزہ میں فوجی کارروائی ستمبر تک جاری رہ سکتی ہے، اسرائیل
24 اگست 2014اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان تمام مقامات کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے، جہاں سے حماس کے عسکریت پسند کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں غزہ کے باشندوں سے زور دے کر کہتا ہوں کہ وہ فوری طور پر ان مقامات سے نکل جائیں، جہاں سے حماس دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان جگہوں پر موجود ہر کوئی ہمارا ہدف ہوگا۔‘‘
اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے، جب ایک روز پہلے ہی غزہ میں گیارہ منزلہ عمارت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ کارروائی سے کچھ دیر پہلے اسرائیلی فوج نے اس عمارت کے رہائشیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ وہاں سے نکل جائیں۔ اسرائیل کے مطابق اس رہائش گاہ میں حماس کا ایک کمانڈ سینٹر تھا۔ اس عمارت کے تباہ ہونے کے نتیجے میں کم از کم 22 افراد زخمی ہوئے، جن میں 11 بچے بھی شامل تھے۔ مقامی رہائشیوں کے مطابق اس عمارت میں 32 خاندان آباد تھے۔
اس کے علاوہ بھی اسرائیل نے غزہ میں متعدد رہائشی اور تجارتی عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے۔ اتوار کے روز بھی غزہ میں سات منزلہ ظفر ٹاور کو نشانہ بنایا گیا۔ اتوار کے روز اسرائیلی فوج نے غزہ میں بیس اہداف کو نشانہ بنایا ہے جبکہ فلسطینی جنگجوؤں نے بیس راکٹ فائر کیے۔ ہفتے کے روز اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 11 فلسطینی مارے گئے تھے۔
ابھی گزشتہ روز ہی مصری حکومت اور فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس نے اپیل کی تھی کہ مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا جائے لیکن آج اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک کارروائیاں جاری رکھیں گے، جب تک اس کی ضرورت ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں فوجی کارروائی ستمبر تک جاری رہ سکتی ہے۔ سرکاری ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’آپریشن ’پروٹیکٹیو ایج‘ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک اہداف حاصل نہیں ہو جاتے۔ اس میں وقت لگ سکتا ہے۔‘‘
اسرائیلی وزیراعظم نے اشارہ کرتے ہوئے شام اور لبنان کو بھی خبردار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ اسرائیلی شہریوں پر فائر کرنے والوں کے لیے کوئی استثنیٰ نہیں ہے اور نہ ہی ہوگا، اس کا اطلاق ہر سیکٹر اور ہر سرحد پر ہوتا ہے۔‘‘ گزشتہ رات شام کی سرزمین سے اسرائیل کی طرف راکٹ فائر کیے گئے تھے اور یہ بیان اسی تناظر میں دیا گیا ہے۔
فلسطینی طبّی ذرائع کے مطابق ابھی تک اسرائیلی حملوں میں 2106 فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ دوسری جانب 68 اسرائیلی بھی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں تین عام شہری تھے۔