غزہ میں مزید ہلاکتیں، صحت کی سہولیات ’بریکنگ پوائنٹ‘ پر
18 جولائی 2024غزہ میں امدادی کارکنوں نے اس محصور ساحلی پٹی کے وسطی علاقوں میں اسرائیلی حملوں میں متعدد افراد کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔ غزہ میں عسکریت پسند تنظیم حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں سات اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک کم از کم 38,848 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
وزارت صحت کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ ہلاکتوں کی تازہ ترین تعداد میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں ہونے والی 54 ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔
غزہ کی جنگ کا آغاز پچھلے سال سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا تھا، جس میں قریب بارہ سو اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے تھے اور تقریباً ڈھائی سو افراد کو حماس کے جنگجو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ لے گئے تھے۔
بین الاقوامی کمیٹی آف ریڈ کراس نے جمعرات کے روز کہا کہ اسرائیلی بمباری سے زخمی ہونے والے لوگوں کی آمد کی وجہ سے جنوبی غزہ میں صحت کی تمام سہولیات ایک ''بریکنگ پوائنٹ‘‘ پر پہنچ چکی ہیں۔
اسی دوران یورپی یونین کے کمیشن کی سربراہ ارزولا فان ڈئر لاین نے جمعرات کے روز غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر عالمی تشویش کی نشاندہی کی۔ انہوں نے فرانس کے شہر اسٹراسبرگ میں یورپی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ''غزہ کے لوگ مزید برداشت نہیں کر سکتے اور انسانیت مزید برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘ انہوں نے ''فوری اور پائیدار جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے بعد کی تیاری‘‘ پر بھی زور دیا۔
'اسرائیل فلسطینیوں کی غیر معینہ نظر بندیاں ختم کرے‘
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی غیر معینہ مدت تک نظربندی اور اپنی جیلوں میں قید فلسطینوں کے خلاف ''بے جا تشدد‘‘ بند کرے۔
جمعرات کے روز ایک بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا، ''اسرائیلی حکام کو چاہیے کہ وہ مقبوضہ غزہ پٹی میں بغیر کسی الزام یا مقدمے کے فلسطینیوں کی غیر معینہ مدت کے لیے حراست ختم کریں، جو بین الاقوامی قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔‘‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد سے ترمیم شدہ اسرائیلی جنگی قانون کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کی منسوخی کا بھی مطالبہ کیا۔ یہ ترمیم شدہ قانون اسرائیلی فورسز کو لوگوں کو بغیر کسی الزام یا مقدمے کے مہینوں تک قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
ایمنسٹی کا مزید کہنا تھا کہ یہ قانون ''بڑے پیمانے پرتشدد کی اجازت دیتا ہے اور بعض حالات میں جبری گمشدگی کے لیے قانونی ڈھال بھی بنتا ہے۔‘‘
اس تنظیم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے 27 ایسے کیسز ریکارڈ کیے ہیں، جن میں فلسطینیوں کو ''ساڑھے چار ماہ تک‘‘ حراست میں رکھا گیا اور اس دوران انہیں ان کے اہل خانہ سے رابطہ بھی نہیں کرنے دیا گیا۔
ایمنسٹی کی طرف سے انٹرویو کیے گئے ان ستائیس فلسطینیوں نے بتایا کہ انہیں حراست کے دوران ''اسرائیلی فوج، انٹیلیجنس اور پولیس فورسز نے تشدد اور دیگر طرح کے ظالمانہ، غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنایا۔‘‘
قیدیوں کے لیے کام کرنے والی ایک فلسطینی غیر سرکاری تنظیم پرزنرز کلب کے مطابق اس وقت تقریباً 9,600 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں بند ہیں، جن میں سینکڑوں انتظامی حراست میں ہیں۔
'فلسطینی ریاست اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ‘
اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ نے فلسطینی ریاست کو اسرائیل کے ''وجود کے لیے خطرہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت میں ایک قرارداد کی منظوری دے دی ہے۔ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دورہ واشنگٹن سے چند روز قبل اس قرارداد کی منظوری پر فلسطینی قیادت کی جانب سے اور بین الاقوامی سطح پر بھی تنقید کی گئی ہے۔
اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے زیر قبضہ زمین پر ایک فلسطینی ریاست ''اسرائیل فلسطین تنازعے کو برقرار رکھے گی اور خطے کو غیر مستحکم کرے گی۔‘‘
یہ قرارداد علامتی ہے لیکن نیتن یاہو کے واشنگٹن کے دورے سے قبل اور مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیل کے قبضے کی قانونی حیثیت کے بارے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے جاری کردہ ایک رائے کے حوالے سے بہت معنی رکھتی ہے۔
اس قرارداد میں مغربی کنارے اور غزہ پٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے، ''کنیسٹ اردن کے مغرب میں (واقع زمین پر) ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔‘‘
قرارداد میں مزید کہا گیا ہے، ''اسرائیل کی سرزمین کے قلب میں ایک فلسطینی ریاست کا قیام اسرائیل کی ریاست اور اس کے شہریوں کے وجود کے لیے خطرہ بنے گا، اسرائیل فلسطین تنازع کو برقرار رکھے گا اور خطے کو عدم استحکام کا شکار کرے گا۔‘‘ کنیسٹ اس سے قبل بھی اس نوعیت کی قراردادیں متعدد بار منظور کر چکی ہے۔
متنازع اسرائیلی وزیر کا دورہ بیت المقدس
انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر نے یروشلم میں ایک متنازع مقدس مقام کے دورے سے ایک بار پھر ہلچل مچا دی ہے۔
انہوں نے بیت المقدس کے مقام پر عکس بند کی گئی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر جاری کی گئی ایک ویڈیو میں کہا کہ وہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے لیے دعاؤں کے ساتھ ساتھ سخت محنت بھی کر رہے ہیں تاکہ اسرائیلی وزیر اعظم مضبوط رہیں اور وہ غزہ کی جنگ کے دوران ہار نہ مانیں اور فتح حاصل کرنے کے لیے فوجی دباؤ میں اضافہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ وہ 'ٹمپل ماؤنٹ‘ پر یرغمالیوں اور ان کی واپسی کے لیے دعا کرنے کے لیے آئے تھے۔ بین گویر حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے ایک ایسے معاہدے کے سخت مخالف ہیں، جس سے جنگ بھی ختم ہو جائے۔ وہ اس طرح کے کسی معاہدے کی صورت میں متعدد مرتبہ موجودہ مخلوط حکومتی اتحاد چھوڑنے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔
ش ر⁄ م ا، م م (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)