1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتمقبوضہ فلسطینی علاقے

غزہ میں پچیس سال بعد پولیو وائرس دوبارہ سر اٹھانے لگا

25 اگست 2024

غزہ کی محصور پٹی میں دس ماہ کے ایک بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق پر صحت سے متعلق عالمی اداروں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے صحت کی دیگر سہولیات کی طرح معمول کی ویکسینیشن مہم بھی متاثر ہوئی ہے۔

وسطی غزہ میں صحت کے ایک مرکز میں بچے کو پولیو سے بچاو کے ٹیکے لگائے جارہے ہیں
وسطی غزہ میں صحت کے ایک مرکز میں بچے کو پولیو سے بچاو کے ٹیکے لگائے جارہے ہیںتصویر: Omar Ashtawy/APA Images/Zumapress/picture alliance

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے اس جنگ زدہ اور محصور ساحلی پٹی میں دس ماہ کے ایک بچے میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق کر دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق متاثرہ بچے کو پولیو ویکسین نہیں پلائی گئی تھی۔ غزہ کی ایک خاتون غدہ الغندور کو بھی خدشہ ہے کہ ان کا ایک ماہ کا بیٹا محمد بھی پولیو سے متاثر ہو سکتا ہے۔

غدہ الغندور نے بتایا کہ ان کے بیٹے کی پیدائش کے تین دن بعد ہی اس کے جسم پر ایسے دھبے نمودار ہونے لگے، جیسے کہ اس کی جلد جل گئی ہو۔

ڈاکٹر نے انہیں مطلع کیا کہ بچے کے علاج کے لیے کوئی دوا دستیاب نہیں، جس کے بعد وہ اس مرض کی تشخیص اور علاج کے لیے بیٹے کو غزہ کے مرکز میں واقع الاقصٰی ہسپتال لے آئیں۔

وسطی غزہ میں واقع صحت کے ایک مرکز میں طبی عملے کی خاتون بچوں کو پولیو سے بچاو کے ٹیکے لگانے کی تیاری کر رہی ہیںتصویر: Omar Ashtawy/APA Images/Zumapress/picture alliance

بچے کی حالت دیکھ کر اس کی ماں کو خدشہ ہے کہ غزہ میں گزشتہ 10 ماہ سے جاری جنگ کی وجہ سے حفظان صحت اور طبی سامان کے فقدان کے باعث اسے کئی دیگر بیماریاں بھی لگ سکتی ہیں۔ محمد کو تاحال پولیو سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے گئے۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے انسداد پولیو کے ماہر ڈاکٹر حامد جعفری نے بتایا کہ غزہ پٹی کے علاقوں دیر البلاح اور خان یونس کے سیوریج سسٹم سے لیے گئے آبی نمونوں میں پولیو وائرس پایا گیا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ یہ وائرس گزشتہ ستمبر سے وہاں گردش کر رہا ہے۔

بچوں کے لیے ایک نیا خطرہ

پولیوملائٹس نامی وائرس آلودہ پانی، خوراک یا ہاتھوں کے ذریعے منہ میں پہنچنے کے علاوہ انسانوں کے مابین قریبی رابطوں سے بھی پھیلتا ہے۔

غزہ میں صاف پانی کے بحران کے باعث ایک بچہ خیراتی ادارے کے یونٹ سے پانی کی بوتلیں بھر رہا ہےتصویر: Yasser Qudaih/Middle East Images/IMAGO

یہ اعصابی نظام پر حملہ کر کے فالج کا سبب بن سکتا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں اور بالخصوص دو سال تک کی عمر کے شیر خوار بچوں کو اس وائرس سے سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہے کیونکہ غزہ کی جنگ نے اس خطے میں  ویکسینیشن کے باقاعدہ نظام الاوقات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

الاقصٰی ہسپتال کے ترجمان خلیل الدقران کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیلی فوج نے سرحدی گزرگاہوں کی بندش جاری رکھی اور ویکسین تک رسائی روکے رکھی، تو اس طرح صحت کا ایک بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔ تاہم فلسطینیوں کے ساتھ شہری معاملات مربوط کرنے والی اسرائیلی دفاعی ایجنسی کوگاٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق آنے والے ہفتوں میں 43 ہزار سے زائد ویکسین یونٹ اسرائیل پہنچ جانے کی توقع ہے، جہاں سے انہیں غزہ بھیجا جائے گا۔ یہ مقدار ایک ملین سے زائد بچوں کے لیے ضروری ویکسین کی دو خوراکوں کے لیے کافی ہو گی۔

خوراک کی قلت کے باعث بچے ایک خیراتی باورچی خانے سے پکا ہوا کھانا ملنے کا انتظار کر رہے ہیںتصویر: Mohammed Salem/REUTERS

تاہم الاقصٰی ہسپتال کے الدقران کے مطابق ویکسینیشن مہم جنگ بندی کے بغیر شروع نہیں کی جا سکتی۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق پولیو کی واپسی غزہ پٹی اور ہمسایہ ممالک کے بچوں کے لیے ایک نیا اور سنگین خطرہ ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے مرکزی ادارہ شماریات کے مطابق غزہ کی 2.3 ملین کی آبادی میں سے تقریباً نصف کی عمریں 18 سال سے کم ہیں اور تقریباﹰ 15 فیصد بچے ایسے ہیں، جن کی عمریں پانچ سال سے بھی کم ہیں۔

پولیو اور دیگر امراض کے خطرات کے علاوہ فلسطینی شہری خوراک، ایندھن اور پانی کی انتہائی قلت کے باعث بھی شدید انسانی بحران کا شکار ہیں۔

گزشتہ برس سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے میں قریب بارہ سو اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے تھے جبکہ 250 کو یرغمال بھی بنا لیا گیا تھا۔ دوسری جانب غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق گزشتہ دس ماہ سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد اب چالیس ہزار سے بھی کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔

ح ف / ش ر، م م (روئٹرز، اے پی)

غزہ میں انسانی بحران کی کیفیت

02:17

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں