غزہ میں کشیدگی ختم کرنے کے لیے حماس- اسرائیل میں معاہدہ
1 ستمبر 2020
محصور غزہ پٹی پر کنٹرول رکھنے والے فلسطینی گروپ حماس کا کہنا ہے کہ اس نے قطر کی ثالثی سے اسرائیل کے ساتھ گزشتہ تین ہفتوں سے زائد عرصے سے جاری کشیدگی کو ختم کرنے کاایک معاہدہ کیا ہے۔
اشتہار
حماس کے رہنما یحیی سنوار کے دفتر سے پیر کے روزجاری ایک بیان کے مطابق قطری سفیر محمد العمادی سے بات چیت کے بعد 'تازہ کشیدگی کو ختم کرنے اور ہمارے عوام کے خلاف (اسرائیلی) جارحیت کو ختم کرنے کے لیے ایک مفاہمت ہوگئی ہے۔"
اسرائیل نے تاہم اس پیش رفت پر ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
العمادی نے ایک بیان میں حماس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ غزہ کے شہریوں کی مشکل صورت حال‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے لیے تیار ہوگئی۔
حماس کے ذرائع نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اسرائیل پر غباروں کے ذریعہ اور دیگر حملے پوری طرح روک دیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ حماس او راسرائیل کے درمیان تازہ ترین کشیدگی میں گزشتہ چھ اگست سے اسرائیل غزہ پر تقریباً روزانہ فضائی حملے کررہا تھا جو اس کے مطابق سرحد پار سے آنے والے بارودی مواد سے لیس غباروں اور راکٹ حملوں کے جواب میں کیے جارہے تھے۔
اسرائیلی فائر بریگیڈ محکمے کے مطابق غباروں میں بھرے ان بارودی مواد سے آگ لگنے کے 400 سے زائد واقعات پیش آئے اور جنوبی اسرائیل میں کھیتوں کو نقصان پہنچا۔
سرحد پار سے ہونے والے حملوں کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کو ایندھن کی فراہمی بند کردی تھی اور اپنے گرِڈ سے غزہ کو دی جانے والی بجلی کی سپلائی بھی دن میں صرف چار گھنٹے کردی تھی۔
خیال رہے کہ ایک مصری وفد حماس اور اسرائیل کے درمیان اس غیر رسمی امن معاہدے کی تجدید کی کوشش کررہا ہے، جس کے تحت اسرائیل نے سرحد پر امن کے بدلے غزہ میں تیرہ سال سے جاری پابندیوں میں نرمی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اسرائیل نے غزہ میں 50 فیصد سے زیادہ بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے دیگر اقدامات پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی لیکن ان اقدامات پرعمل درآمد کے معاملے میں اختلافات کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوگیا تھا۔
کشیدگی میں اضافہ کے نتیجے میں 2008، 2012 اور 2014 میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے واقعات پیش آئے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان ان تین بڑی جنگوں کے علاوہ چھوٹی موٹی کئی جنگیں ہوچکی ہیں۔ ثالثین کسی نئی جنگ کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی)
غزہ کی سرنگیں
غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائی کا ایک اہم ہدف سرنگوں کو تباہ کرنا بھی ہے۔ حماس ان سرنگوں کو اسرائیل پر حملوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔ تاہم زیر زمین بنائےجانے والے یہ راستے دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/landov
خفیہ داخلی راستے
سرنگوں میں داخل ہونے کے اکثر راستے عام گھروں میں ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بیرونی دنیا سے پوشیدہ رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ انہیں استعمال کرنے والوں کو محصول بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور اس ر قم کا کچھ حصہ گھر کے مالک کو بھی جاتا ہے۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ غزہ کے باسی جو پیسہ سرنگوں کو استعمال کرنے پر خرچ کرتے ہیں، اسے کسی اور مقصد میں بھی لایا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images
بقا کا راستہ یا اسمگلنگ کا ذریعہ؟
فلسطینیوں کی نظر میں یہ سرنگیں غزہ پٹی کی بقا کے لیے ضروری ہیں جبکہ اسرائیل کے خیال میں غزہ میں اسلحے کی ترسیل اور جنگجوؤں کی آمدورفت کے لیے بھی انہی سرنگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ سینکڑوں یا پھر ہزاروں کی تعداد میں یہ سرنگیں غزہ اور بیرونی دنیا کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ ہیں۔ کم اونچائی والے ان راستوں سے جانوروں کو بھی لایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
پُر خطر تعمیر
ان زیر زمین سرنگوں کی تعمیر میں عام اوزار استعمال کیے جاتے ہیں یعنی بیلچے اور کدال وغیرہ۔ اس دوران لکڑیوں کے تختے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ بڑی سرنگوں میں سیمنٹ اور کنکریٹ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ نوجوان فلسطینیوں کے لیے سرنگیں کھودنا روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔ زمین کے سرکنے کی وجہ سے اکثر جان لیوا حادثات بھی رونما ہوتے ہیں۔
تصویر: Getty Images
تعمیراتی سامان کی ترسیل
فلسطینی غزہ پٹی کے مخدوش بنیادی ڈھانچے اور تعمیراتی کاموں کے لیے سیمنٹ اور دیگر ضروری اشیاءکی ترسیل کے لیے ان سرنگوں کو واحد ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سرنگیں کپڑے اور ضروریات زندگی کے سامان کے علاوہ اسلحے کی منتقلی کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/T. Krämer
بڑھتا ہوا رجحان
غزہ پٹی میں گزشتہ تیس برسوں سے سرنگوں کا نظام موجود ہے۔ 1979ء میں اسرائیل اور مصر کے مابین ہونے والے امن معاہدے کے بعد1982ء میں شہر رفاہ کو تقسیم کر دیا گیا۔ ایک حصہ مصر جبکہ دوسرا غزہ میں شامل ہو گیا تھا۔ اس منقسم شہر میں سامان کا تبادلہ سرنگوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اور اس کے بعد سے سرنگوں کا یہ جال پھیلتا ہی چلا گیا۔
تصویر: Getty Images
بہترین نیٹ ورک
کئی سرنگیں بہترین مواصلاتی نظام سے بھی لیس ہیں۔ بجلی کے علاوہ بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے ان میں ٹیلیفون تک کی سہولت بھی موجود ہے۔ مخصوص حالات میں حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے بھی ان سرنگوں میں پناہ لی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images
مصر بھی سرنگوں سے خائف
اسرائیل کے ساتھ ساتھ مصر بھی ان سرنگوں کے خلاف ہے۔ مصر کے جزیرہ نما سینائی میں کیے جانے والے اکثر حملوں کی ذمہ داری بھی حماس پر عائد کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ملکی فوج گزشتہ کئی برسوں کے دوران متعدد سرنگوں کے اُن حصوں کو تباہ کر چکی ہے، جو مصر میں ہیں۔ سابق مصری صدر محمد مرسی کے دور میں بھی یہ سرنگیں تباہ کرنے کا سلسلہ جاری رہا تھا۔
تصویر: DW/S.Al Farra
زمین کے نیچے سے خطرہ
کچھ سرنگیں ایسی بھی ہیں، جن کے ذریعے اسرائیلی فوجیوں پر حملے بھی کیے گئے ہیں۔ شدت پسند فلسطینی کسی اسرائیلی چوکی یا چھاؤنی کے نیچے پہنچنے کے بعد زیر زمین دھماکے کرتے ہیں۔ 2004ء میں حماس کی جانب سے اسی طرح کے ایک حملے میں پانچ اسرائیلی فوجی ہلاک جبکہ دیگر دس زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images
غزہ میں کارروائی جاری
اسرائیلی ذرائع کے مطابق غزہ میں کی جانے والی کارروائی کے دوران اب تک درجنوں ایسی سرنگوں کا پتا چلا کر انہیں تباہ کیا جا چکا ہے۔ عالمی برادری کی اپیلوں کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو غزہ پر حملے جاری رکھنے پر بضد ہیں۔ ’’ہم اس وقت تک یہ کارروائی جاری رکھیں گے، جب تک تمام سرنگوں کو تباہ نہیں کر دیا جاتا۔‘‘