غزہ پر اسرائیلی بمباری، حماس کے ٹھکانے تباہ کرنےکا دعویٰ
20 جون 2018
آج بدھ کی صبح اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ پٹی میں متعدد مقامات کو نشانہ بنایا۔ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ کارروائیاں فلسطینی علاقوں سے راکٹ داغے جانے کے جواب میں کی گئی ہیں۔
اشتہار
اسرائیلی فوج کے اس بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ سے اسرائیل کی جانب کم از کم 45 راکٹ داغے گئے اور ان میں سے سات کو فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا۔ اسرائیل نے اپنی سرحدوں پر میزائل شکن نظام نصب کیے ہوئے ہیں۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ جواب میں اسرائیلی طیاروں نے غزہ میں تین مختلف مقامات کو نشانہ بنایا، ’’یہ عسکری ٹھکانے شدت پسند تنظیم حماس کے تھے۔‘‘
اسرائیل کی جانب سے یہ کارروائی ایک ایسے وقت پر کی گئی ہے جب غزہ سرحد پر اسرائیل مخالف مظاہروں کی وجہ سے شدید تناؤ پایا جاتا ہے۔ مارچ میں ایسے ہی مظاہروں کے دوران 132 فلسطینی ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ دوسری جانب کسی بھی اسرائیلی شہری کی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔
فلسطینی 1948ء کے جنگ کے دوران نقل مکانی پر مجبور کیے جانے والے اور ہجرت کر جانے والوں کی واپسی کا حق دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 1948ء میں ہی اسرائیلی ریاست وجود میں آئی تھی۔
غزہ پٹی کا انتظام حماس کے پاس ہے اور یہ تنظیم اسرائیل کو اپنا بدترین دشمن سمجھتی ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق، ’’حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے، جو رات کے وقت راکٹ داغ کر عام اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بناتی ہے۔‘‘ اسرائیل اور حماس 2008ء کے بعد تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور ان کے مابین فائر بندی کے کئی معاہدےبھی ہو چکے ہیں، جن کی تواتر کے ساتھ خلاف ورزیاں بھی کی جاتی رہی ہیں۔
ع ا / ع س (اے ایف پی)
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔