1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

غزہ پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں، بینجمن نیتن یاہو

10 نومبر 2023

اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ انہیں عسکریت پسندی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے غزہ میں ایک قابل اعتماد قوت کی ضرورت ہو گی۔ اقوام متحدہ نے جنگ میں وقفے پر عمل درآمد کے لیے تمام فریقوں سے تعاون کی اپیل کی ہے۔

Gazastreifen IDF rückt weiter auf Gaza-Stadt vor
تصویر: Israel Defense Forces/Handout via REUTERS

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن  نیتن یاہو نے کہا کہ حماس کے خلاف جنگ کے بعد اسرائیلی ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کا غزہ کی پٹی پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے جمعرات کو فوکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا،"ہم غزہ کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کر رہے، ہم غزہ پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے اور ہم غزہ پر حکومت نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ تاہم انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں سے لاحق خطرات روکنے کے لیے اگر ضرورت پڑی تو فلسطینی سرزمین پر  ایک 'قابل اعتماد فورس‘ کی ضرورت ہوگی۔

نیتن یاہو نے مزید کہا، ''ہمارے پاس ایک ایسی قابل اعتماد قوت ہونی چاہیے، جواگر ضرورت ہو تو، غزہ میں داخل ہو کر قاتلوں کو مار ڈالے۔ کیونکہ حماس جیسی تنظیم کے دوبارہ وجود میں آنے سے روکنے کے لیے ایسا ہی کرنا ہو گا۔‘‘

ایک ماہ سے جاری مسلسل اسرائیلی حملوں کی وجہ سے غزہ کی اکظر عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیںتصویر: Leo Correa/AP Photo/picture alliance

جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم  کا یہ انٹرویو ان کے صرف چند دن بعد پہلے دیے گئے اس انٹرویو کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں نیتن یاہو نے امریکی چینل اے بی سی نیوز کو بتایا تھا، "اسرائیل(غزہ) میں غیر معینہ مدت کے لیے مجموعی سکیورٹی ذمہ داری کے ساتھ اپنے پاس رکھے گا۔"

اس کے بعد پیر کو  امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا تھا کہ غزہ میں بحران کے بعد کی حکمرانی میں فلسطینیوں کو شامل ہونا چاہیے۔  بعدا ازاں بلنکن نے بدھ کے روز ٹوکیو میں ایک پریس کانفرنس میں کہا، ''تنازعہ ختم ہونے کے بعد غزہ پر دوبارہ قبضہ نہیں کیا جائے گا۔ غزہ کی ناکہ بندی یا محاصرہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں۔ غزہ کی علاقائی حدود میں  بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘

 تمام فریق  لڑائی میں وقفے کے لیے تعاون کریں، اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے کہا کہ غزہ میں اسرائیل اور عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان لڑائی میں کسی بھی طرح کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لڑائی میں وقفہ ''واقعی موثر ہو۔‘‘

 انہوں نے مزید کہا، ''ظاہر ہے، انسانی ہمدردی کے مقاصد کے لیے اس وقفے کو محفوظ طریقے سے انجام دینے کے سلسلے میں تنازع کے تمام فریقین کے ساتھ اس بات پر متفق ہونا پڑے گا کہ وہ حقیقی معنوں میں موثر ہو۔‘‘

اس سےقبل  وائٹ ہاؤس نے جمعرات کے روز اعلان کیا تھا کہ اسرائیل نے شمالی غزہ کے کچھ حصوں میں روزانہ چار گھنٹے کے لیے فوجی آپریشن روکنے پر اتفاق کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمشنر فولکر ترک تصویر: Salvatore Di Nolfi/KEYSTONE/dpa/picture alliance

امریکی صدر جو بائیڈن نے اسے "صحیح سمت میں ایک قدم" قرار دیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ اسرائیل ''شہری آبادی میں سرایت کرنے والے دشمن سے لڑ رہا ہے، جس سے بے گناہ فلسطینیوں کو خطرہ لاحق ہے لیکن یہ کہ اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردوں اور شہریوں میں فرق کرے اور بین الاقوامی قانون کی مکمل تعمیل کرے۔‘‘

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس کے جواب میں کہا، ''حماس کے دہشت گردوں کے خلاف لڑائی جاری ہے، لیکن مخصوص جگہوں پر ایک مقررہ مدت کے لیے چند گھنٹے یہاں، چند گھنٹے وہاں، ہم ایک محفوظ راستہ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ عام شہریوں کو لڑائی کے علاقے سے دور رکھا جائے اور ہم یہ کر رہے ہیں۔‘‘

خیال رہے کہ حماس کو اسرائیل، امریکہ، جرمنی اور کئی دیگر ممالک نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔

مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف تشدد پرتشویش

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق ادارے کے سربراہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کو تحفظ فراہم کرے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے مشرقی وسطی کے دورے پر موجود اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر فولکر ترک کا ایک بیان کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا تھا، ''میں فوری طور پر اسرائیلی حکام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کریں، جو روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی فورسز اور آباد کاروں کی کارروائی کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘ ایک اندازے کے مطابق مغربی کنارے میں 30 لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔

عالمی برادری مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی سمجھتی ہے۔ اسرائیل  اس سے اختلاف کرتا ہے۔ فولکر ترک نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی شہریوں کو اجتماعی سزا دینے اور ان کے جبری انخلاء کے ساتھ ساتھ حماس اور دیگر عسکریت پسند فلسطینی گروپوں کی طرف سے کیے جانے والے مظالم پر بھی کھلی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے اس طرح کے اقدامات جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔

سات اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف تشدد میں اضافہ دیکھا گیا ہےتصویر: Mamoun Wazwaz/APA Images/ZUMAPRESS/picture alliance

 جنگ فلسطینی ترقی کو واپس 2002 ء کی سطح پر لا سکی ہے، یواین ڈی پی انتباہ

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے مغربی ایشیا (ESCWA) نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ فلسطینی معیشت میں بگاڑ سے غربت میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے چار لاکھ سے زائد افراد سے  غربت کے دائرے میں چلے گئے ہیں اور مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

یو این ڈی پی نے خبردار کیا کہ اگر جنگ مزید ایک ماہ تک جاری رہی تو غزہ اور مغربی کنارے میں غربت کی شرح 34 فیصد تک بڑھ سکتی ہے اور جی ڈی پی 8.4 فیصد تک گر سکتی ہے، جس سے 1.7 بلین ڈالر کا نقصان ہو گا۔

 یو این ڈی پی کے ایڈمنسٹریٹر اچیم سٹینر نے کہا، ''یہ تشخیص ہمیں متنبہ کرتی ہے کہ یہ جنگ دیرپا اثرات مرتب کرے گی اور یہ اثرات صرف غزہ تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔‘‘

آئی ڈی ایف کی  ڈرون حملے پر شامی ملیشیا کے خلاف جوابی کارروائی

 اسرائیل ڈیفنس فورسز نے جمعے کے روز کہا ہےکہ انہوں نے شام میں ایک ایسے گروپ پر حملہ کیا، جس نے ایک روز قبل ایک اسرائیلی اسکول پر حملہ کیا تھا۔ اسرائیلی فوج نے سوشل میڈیا پر کہا، ''شام سے آنے والے اس یو اے وی (ڈرون) کے جواب میں جس نے ایلات میں ایک اسکول کو نشانہ بنایا، آئی ڈی ایف نے حملہ کرنے والی تنظیم کے خلاف جوابی کارروائی کی۔‘‘

 آئی ڈی ایف نے زیر بحث شامی  تنظیم کی شناخت ظاہر نہیں کی لیکن کہا، ''وہ شامی حکومت کو اپنی سرزمین سے ہونے والی ہر دہشت گردی کی سرگرمی کا مکمل طور پر ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔‘‘  شام نے آئی ڈی ایف کے بیان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

ش ر⁄ ک م، ر ب ( اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اسرائیلی یرغمالی خاتون بحفاظت اپنے گھر پہنچ گئی

02:20

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں