غزہ ميں اسرائيلی فوج کے ايک عسکری آپريشن کے دوران شروع ہونے والی جھڑپيں شدت اختيار کر گئيں، جن ميں ايک اسرائيلی فوجی اور چھ فلسطينيوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہيں۔ يوں قيام امن کی تازہ ترين کوشش بے اثر دکھائی ديتی ہے۔
اشتہار
غزہ ميں مسلح جھڑپوں کے بعد اسرائيلی وزير اعظم بينجمن نيتن ياہو نے اپنا دورہ فرانس قبل از وقت ختم کرتے ہوئے واپس اسرائيل جانے کا اعلان کر ديا ہے۔ اسی دوران غزہ سے اسرائيل کے جنوبی حصے کی جانب کم از کم دس راکٹ داغے گئے، جن ميں سے دو کو اسرائيلی فوج نے فضا ہی ميں تباہ کر ديا۔ فی الحال يہ واضح نہيں کہ يہ راکٹ کہاں گرے اور ان کی وجہ سے کتنا جانی و مالی نقصان ہوا۔
دريں اثناء غزہ پٹی کے علاقے خان يونس ميں پيش آنے والے واقعے کی تفصيلات سامنے آ رہی ہيں۔ غزہ کی وزارت صحت نے چھ فلسطينيوں کی ہلاکت کی تصديق کر دی ہے۔ ہلاک شدگان ميں حماس کے عسکری ونگ القسام بريگيڈ کا ايک کمانڈر بھی شامل ہے۔ دوسری جانب اسرائيلی فوج نے اپنے ايک فوجی کی ہلاکت اور ايک کے زخمی ہونے کا بتايا ہے۔ فوجی بيان کے مطابق غزہ ميں ايک عسکری آپريشن کے دوران مسلح جھڑپ شروع ہوئی اور اسی ميں ايک فوجی ہلاک اور ايک زخمی ہوا۔ ساتھ ہی اسرائيلی فوج نے يہ بھی کہا ہے کہ آپريشن ابھی اختتام پذير نہيں ہوا ہے۔
حماس نے اس آپريشن کے حوالے سے بتايا ہے کہ اسرائيلی خصوصی دستے ايک سويلين کار ميں خان يونس پہنچے۔ فی الحال اسرائيلی فوج نے حماس کے اس بيان پر کوئی رد عمل ظاہر نہيں کيا۔ واضح رہے کہ غزہ پٹی ميں کوئی بھی زمينی کارروائی کافی پيچيدہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اسرائيل اور فلسطين کے درميان يہ تازہ کشيدگی ايک ايسے موقع پر رونما ہوئی ہے، جب حالات بہتری کی جانب گامزن تھے۔ اسرائيل نے حال ہی ميں قطر کی جانب سے کئی ملين ڈالر کی امداد کی اجازت دی تھی۔ نيتن ياہو نے داخلی سطح پر مخالفت اور تنقيد کے باوجود يہ قدم اٹھايا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک ہو سکے وہ جنگ سے بچيں گے۔
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔