غزہ پٹی میں حماس کا سربراہ یحییٰ السنوار کون ہے؟
29 نومبر 2023یحییٰ السنوار پر الزام ہے کہ اسرائیل پر سات اکتوبر کے روز حماس کے دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی اس نے ہی کی تھی۔ یہ حملہ اسرائیل کی تاریخ میں اس ریاست پر آج تک کیا جانے والا سب سے خونریز حملہ تھا، جس میں تقریباﹰ 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور واپس جاتے ہوئے حماس کے جنگجو تقریباﹰ 240 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ بھی لے گئے تھے۔
اسرائیل کو غزہ پٹی میں حماس کے اس سربراہ کی اتنی شدت سے تلاش ہے کہ اسرائیلی حکام کے مطابق یحییٰ السنوار اب ایک ''چلتی پھرتی لاش‘‘ ہے۔
غزہ میں عبوری فائر بندی کو مستقل جنگ بندی میں بدلنے پر زور
اسرائیل نے حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد غزہ پٹی پر مسلسل زمینی اور فضائی حملے شروع کر دیے تھے، جن میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق تقریباﹰ 15 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک شدگان میں ہزاروں کی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل تھے۔
اسرائیل اور حماس کی جنگ میں گزشتہ چند دنوں سے جو عبوری فائر بندی جاری ہے، اس کے نتیجے میں اب تک حماس اپنے زیر قبضہ یرغمالیوں میں سے بیسیوں کو رہا کر چکی ہے جبکہ اسرائیل بھی ڈیڑھ سو سے زائد فلسطینی قیدیوں کو جیلوں سے رہا کر چکا ہے اور ان میں بھی خواتین اور بچے شامل ہیں۔
ساتھ ہی غزہ پٹی کے دو ملین سے زائد بحران زدہ عوام کے لیے رفح کی سرحدی گزرگاہ کے راستے اقوام متحدہ کی مدد سے مصر سے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر فوری امدادی سامان کی ترسیل بھی شروع ہو چکی ہے۔
حماس کے دہشت گردانہ حملے کا مختلف پہلو
سات اکتوبر کے روز حماس نے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کی ایک سال سے لے کر دو سال کے عرصے تک باریک بینی سے منصوبہ بندی کی تھی۔ اس اچانک حملے نے ہر کسی کو حیران کر دیا تھا۔
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں قائم عرب مرکز برائے تحقیق و سیاسی علوم (CAREP) سے منسلک ماہر اور مصنفہ لیلیٰ سیورات کے مطابق، ''اس حملے نے نہ صرف ہر کسی کو حیران کر دیا تھا بلکہ اس کی وجہ سے طاقت کا زمینی توازن بھی بدل گیا تھا۔‘‘
اسرائیل حماس جنگ: فائر بندی میں توسیع امید کی کرن، گوٹیرش
یحییٰ السنوار کی عمر اس وقت 61 برس ہے اور اسے سات اکتوبر کے بعد سے اب تک کسی نے نہیں دیکھا۔ السنوار کے ساتھ کئی برس اسرائیلی جیلوں میں گزارنے والے حماس کے ابو عبداللہ نامی ایک رکن نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ''یحییٰ السنوار اپنی راز داری کے لیے جانا جاتا ہے اور وہ بہت ہوشیار سکیورٹی آپریٹر ہے۔‘‘
ابو عبداللہ نے 2017ء میں اپنے اس سابقہ ساتھی قیدی کو غزہ پٹی میں حماس کا سربراہ منتخب کیے جانے پر اے ایف پی کو بتایا تھا، ''السنوار بڑے تحمل سے فیصلے کرنے کا عادی ہے اور بات اگر حماس کے مفادات کے تحفظ کی ہو تو اس کی سرگرمیوں کا کھوج نہیں لگایا جا سکتا۔‘‘
’بدی کا چہرہ‘
حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیشٹ نے السنوار کو ''بدی کا چہرہ‘‘ اور ایک 'چلتی پھرتی لاش‘‘ قرار دیا تھا۔ یحییٰ السنوار غزہ پٹی کے جنوبی حصے میں خان یونس کے مہاجر کیمپ میں پیدا ہوا تھا اور اس نے حماس میں اس وقت شمولیت اختیار کی تھی، جب تقریباﹰ 1987ء کی پہلی فلسطینی انتفادہ کے وقت ہی شیخ احمد یاسین نے اس گروپ کی بنیاد رکھی تھی۔
غزہ میں عارضی فائربندی پر عمل درآمد شروع
اس کے اگلے ہی سال السنوار نے حماس کا اپنا داخلی سکیورٹی ڈھانچہ قائم کیا اور اس کے انٹیلیجنس یونٹ کی سربراہی کرتے ہوئے السنوار نے ان فلسطینیوں کو بڑی بے رحمی سے سزائیں دیں اور کئی واقعات میں ان کا قتل بھی کیا، جن پر حماس کا الزام تھا کہ وہ اسرائیل کو خفیہ معلومات مہیا کرتے تھے۔
روانی سے عبرانی زبان بولنے کی اہلیت
یحییٰ السنوار نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی اور پھر مختلف اسرائیلی جیلوں میں 23 سال تک قید کاٹنے کے دوران اس نے عبرانی زبان میں اتنی مہارت حاصل کر لی تھی کہ وہ یہ زبان روانی سے بول سکتا ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی ثفاقت اور معاشرے کی بڑی گہری سوجھ بوجھ بھی رکھتا ہے۔
لبنان سے اسرائیل پر حزب اللہ کے حملوں میں تیزی
السنوار کو دو اسرائیلی فوجیوں کے قتل کے جرم میں چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ پھر 2011ء میں جب اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کی رہائی سے متعلق مفاہمت ہو گئی، تو اسرائیل نے جن 1,027 فلسطینیوں کو رہا کیا تھا، ان میں سے یحییٰ السنوار سب سے سینیئر فلسطینی قیدی تھا۔
قسام بریگیڈز کا سینیئر کمانڈر
اسرائیلی جیل سے رہائی کے بعد یحییٰ السنوار نہ صرف عزالدین القسام بریگیڈز کا سینیئر کمانڈر بن گیا، بلکہ اس نے حماس کے اس عسکری بازو کی قیادت کے ساتھ ساتھ غزہ پٹی میں اس عسکریت پسند گروپ کی مجموعی قیادت بھی سنبھال لی تھی۔
غزہ پٹی میں حماس کی قیادت سنبھالنے کے بعد السنوار نے یہ بھی کیا کہ جہاں اس کا پیش رو سربراہ دنیا کو حماس کا ایک اعتدال پسند چہرہ دکھانے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا، وہیں پر السنوار نے اس بات کو ترجیح دی کہ مسئلہ فسلطین کو زیادہ تشدد اور خونریزی کے ساتھ اجاگر کیا جائے۔
اسرائیل اور حماس کی موجودہ جنگ: کب کیا ہوا؟
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ یحییٰ السنوار کا خواب یہ ہے کہ غزہ پٹی اور صدر محمود عباس کی فتح پارٹی کے کنٹرول والے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے پر مشتمل فلسطینیوں کی اپنی ایک آزاد ریاست قائم ہونا چاہیے، جس میں مشرقی یروشلم کا وہ مقبوضہ حصہ بھی شامل ہو، جسے اسرائیل یک طرفہ طور پر اپنے ریاستی علاقے میں شامل کر چکا ہے۔
طاقت کے استعمال کی منطق
امریکہ کے خارجہ تعلقات کی کونسل نامی تھنک ٹینک کے مطابق السنوار نے 2006ء کے الیکشن کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی حماس اور فتح کی لڑائی کے تناظر میں کہا تھا کہ وہ ہر اس شخص کو سزا دے گا، جو فتح پارٹی کے ساتھ مصالحت کی کوششوں میں رکاوٹ بنے گا۔
پیرس کے عرب مرکز برائے تحقیق و سیاسی علوم کی لیلیٰ سیورات کے مطابق السنوار نے ''سخت گیر عسکری منصوبہ بندی اور سیاست میں امید پسندی‘‘ کا راستہ چنا ہے۔ سیورات کے الفاظ میں، ''السنوار طاقت کے صرف بطور طاقت استعمال کا حامی نہیں بلکہ وہ اسے اسرائیل کو مذاکرات پر آمادگی کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔‘‘
'سب سے زیادہ مطلوب بین الاقوامی دہشت گرد‘
غزہ میں حماس کے اس سربراہ کا نام امریکہ نے 2015ء میں اپنی سب سے زیادہ مطلوب ''بین الاقوامی دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں بھی شامل کر لیا تھا۔ اس فہرست میں حماس کی عزالدین القسام بریگیڈز کے موجودہ کمانڈر محمد ضیف کا نام بھی شامل ہے، جسے سات اکتوبر کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملے کا دوسرا ماسٹر مائنڈ قرار دیا جاتا ہے۔
غزہ پٹی سے باہر سکیورٹی ذرائع کے مطابق یحییٰ السنوار اور محمد ضیف اس وقت بظاہر غزہ پٹی کے علاقے میں موجود سرنگوں کے طویل زیر زمین نیٹ ورک میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
اسرائیل اور حماس سیزفائر، یرغمالیوں کی رہائی کی ڈیل پر متفق
اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلینٹ نے نومبر کے شروع میں کہا تھا کہ اسرائیل السنوار کو ''تلاش اور ختم کرنے‘‘ کا تہیہ کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے غزہ کے عوام سے کہا تھا کہ وہ السنوار کو اسرائیل کے حوالے کر دیں۔
ساتھ ہی اسرائیلی وزیر دفاع نے یہ بھی کہا تھا، ''اگر آپ (غزہ کے عوام) ہم سے پہلے اس (السنوار) تک پہنچ گئے، تو یہ جنگ مختصر ہو جائے گی۔‘‘
م م / ع ا، ع آ (اے ایف پی)