غزہ پٹی میں ہلاکتیں، فلسطینی انتظامیہ کا سوگ کا اعلان
31 مارچ 2018
غزہ پٹی میں اسرائیلی فورسز کی کارروائی کے نتیجے میں سولہ فلسطینیوں کی ہلاکت پر فلسطینی اتھارٹی نے ایک روزہ سوگ کا اعلان کر دیا ہے۔ جمعے کے دن یہ ہلاکتیں مظاہرین اور اسرائیلی فورسز کے مابین تصادم کے نتیجے میں ہوئی تھیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ہفتہ اکتیس مارچ کو لکھا کہ فلسطینی اتھارٹی نے غزہ پٹی میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کی خاطر ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
جمعے کے دن اسرائیلی فورسز اور فلسطینی مظاہرین کے مابین اس وقت جھڑپیں شروع ہوئیں، جب فلسطینی مظاہرین نے غزہ پٹی اور اسرائیل کے درمیان سرحد پر سکیورٹی فورسز پر پتھراؤ کیا اور ٹائر جلائے۔
مقامی میڈیا کے مطابق اس سرحدی پٹی پر چھ مختلف مقامات پر نکالی گئی ان فلسطینی احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ غزہ میں طبی ذرائع کے مطابق اس دوران ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں چودہ سو افراد زخمی بھی ہوئے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس تشدد کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔
ادھر اسرائیلی فورسز نے الزام عائد کیا ہے کہ حماس کے زیر کنٹرول غزہ میں اس جنگجو تنظیم نے دانستہ طور پر اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا۔ بیان کے مطابق ان مظاہروں کے دوران حماس ہی کی وجہ سے جھڑپیں شروع ہوئیں۔
اسرائیل نے خبردار کیا ہے کہ اگر مظاہروں کے اس سلسلے کے دوران مزید اشتعال انگیزی کی گئی تو مؤثر جوابی کارروائی کی جائے گی۔
دوسری طرف اقوام متحدہ نے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں ہونے والی ان ہلاکتوں کی آزادانہ اور غیر جانبدرانہ انکوائری کرائی جائے۔ عالمی ادارے کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش نے کہا کہ وہ اس پیشرفت پر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔
فلسطینی مظاہرین نے کہا ہے کہ وہ اپنے ان احتجاجی مظاہروں کو آئندہ بھی جاری رکھیں گے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق ان مظاہرین کی تعداد تیس ہزار کے قریب بنتی ہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
سن انیس سو اڑتالیس میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں فلسطینی بڑے پیمانے پر موجودہ اسرائیلی علاقوں سے مہاجرت پر مجبور ہو گئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر فلسطینی اب غزہ پٹی، مغربی اردن اور ہمسایہ ممالک میں سکونت پذیر ہیں کیونکہ اسرائیل ان کو واپسی کی اجازت نہیں دیتا۔
ان مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ فلسطینی مہاجرین کو ان کے گھروں میں واپس جانے کا حق دیا جائے۔ دوسری طرف اسرائیل اور مصر کی طرف سے غزہ پٹی کی ناکہ بندی کی وجہ سے وہاں شدید انسانی بحران کا خطرہ بھی پیدا ہو چکا ہے۔
ع ب / م م / اے ایف پی
’غزہ سے نکل نہيں سکتے ليکن تصاوير ہمارا پيغام عام کريں گی‘
غزہ پٹی ميں دو نوجوان لڑکياں ’انسٹاگرام‘ کی مدد سے دنيا کو اپنے علاقے کا ايک ايسا رخ دکھانے کی کوششوں ميں ہيں، جو اس علاقے کے حوالے سے پائے جانے والے عام تاثرات کے بالکل مختلف ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
تصاوير بولتی ہيں
چھبيس سالہ خولود نصر کہتی ہيں، ’’ميں انسٹاگرام کو ايک کھڑکی کے طور پر ديکھتی ہوں۔‘‘ گلابی رنگ کا حجاب پہنے ہوئے يہ باہمت نوجوان لڑکی، اپنے علاقے کا ايک مختلف پہلو اجاگر کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے ليے نصر نے سوشل ميڈيا کا سہارا ليا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’دنيا ميری دسترس ميں‘
نصر کی اکيس سالہ ساتھی فاطمہ مسابہ بھی کچھ ايسے ہی خيالات رکھتی ہيں۔ مسابہ کے مطابق انٹرنيٹ کھولتے ہی پوری کی پوری دنيا کے لوگ ان کی دسترس ميں ہوتے ہيں۔ مجموعی طور پر ان دونوں لڑکيوں کے ’اسٹاگرام‘ پر قريب ايک لاکھ فالوئرز ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
بندشوں کا شکار غزہ
غزہ پٹی ميں لگ بھگ دو ملين لوگ آباد ہيں۔ يہ علاقہ شمال اور مشرق کی جانب اسرائيل کے ساتھ لگتا ہے، جنوب ميں مصر کے ساتھ اور مغرب ميں بحيرہ روم پڑتا ہے۔ غزہ کے شہريوں کو بلا اجازت اپنا علاقہ چھوڑنے کی اجازت نہيں۔ يہی وجہ ہے کہ نصر اور مسابہ قريب ايک دہائی سے غزہ سے باہر نہيں نکليں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ ميں صرف جنگ نہيں، اور بھی کچھ ہے‘
خولود نصر کا کہنا ہے، ’’جنگ غزہ کا حصہ ضرور ہے، ليکن يہاں صرف جنگ ہی نہيں۔ ميں يہ دکھانا چاہتی ہوں کہ دنيا کے کسی بھی اور ملک کی طرح يہاں اور بھی بہت کچھ ہے۔‘‘ اس کے بقول اب امريکا ہی کی مثال لے ليں، وہاں غربت بھی ہے اور دلکش مناظر بھی۔ وہ کہتی ہيں کہ انسٹاگرام پر تصاوير کے ذريعے وہ لوگوں کو دکھانا چاہتی ہيں کہ مقامی لوگ کس طرح اپنی زندگياں گزارتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سوشل ميڈيا کا مثبت کردار
فلسطينی سوشل ميڈيا کلب کے سربراہ علی بخت کے مطابق غزہ ميں رہائش پذير تقريباً نصف لوگ فيس بک پر موجود ہيں ليکن اس کے مقابلے ميں ٹوئٹر اور انسٹا گرام پر سرگرم لوگوں کی تعداد کم ہے۔ ان کے بقول سالہا سال سے اسرائيلی بندشوں کی وجہ سے غزہ کے شہری اپنی آواز سنانے اور اظہار خيال کے ليے سوشل ميڈيا کو بروئے کار لاتے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
’غزہ کا تاثر بدلنا ہے‘
فاطمہ مسابہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کی ساکھ بدلنا چاہتی ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’ميرے نزديک سب سے اہم يہ ہے کہ بندشوں، جنگ اور تباہی کے علاوہ ہم يہاں کی خوبصورتی کو بھی دکھائيں۔‘‘ مسابہ اور نصر کی زيادہ تر تصاوير ميں وہ خود بھی دکھائی ديتی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
آمدنی بھی، سروس بھی
مسابہ کے ليے ان کا انسٹاگرام آمدنی کا ذريعہ بھی ہے۔ وہ ماہانہ بنيادوں پر ڈھائی سو يورو کے قريب کما ليتی ہيں۔ ان کے پيج پر اشتہارات سے انہيں يہ رقم ملتی ہے۔ ايک ايسے خطے ميں جہاں نوجوانوں ميں بے روزگاری کی شرح ساٹھ فيصد سے بھی زيادہ ہے، وہاں مسابہ نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔