1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمقبوضہ فلسطینی علاقے

غزہ کی جنگ میں ہر دس میں سے نو شہری اب بے گھر، اقوام متحدہ

4 جولائی 2024

گزشتہ قریب نو ماہ سے جاری غزہ کی جنگ میں وہاں تقریباﹰ 2.3 ملین کی مجموعی آبادی میں اب تک ہر دس میں سے نو شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہ بات اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سرگرمیوں کے رابطہ دفتر نے بتائی۔

جنگ، شدید گرمی، بھوک اور بے خانمانی: غزہ کے لاکھوں شہریوں کو کئی طرح کے بحرانی مسائل کا سامنا ہے
جنگ، شدید گرمی، بھوک اور بے خانمانی: غزہ کے لاکھوں شہریوں کو کئی طرح کے بحرانی مسائل کا سامنا ہےتصویر: Abdel Kareem Hana/AP Photo/picture alliance

سوئٹزرلینڈ میں جنیوا سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کاموں کی نگران ایجنسی OCHA کے فلسطینی علاقوں میں سرگرمیوں کے سربراہ آندریا ڈی ڈومینیکو نے بتایا کہ غزہ پٹی کے بہت گنجان آباد لیکن تنگ ساحلی علاقے کی گزشتہ برس سات اکتوبر سے شروع ہونے والی جنگ سے قبل مجموعی آبادی تقریباﹰ 2.3 ملین تھی۔ ان کے مطابق اب ان میں سے تقریباﹰ 1.9 ملین فلسطینی بےگھر ہو چکے ہیں۔

نوے فیصد شہری کم از کم ایک مرتبہ داخلی طور پر بے گھر ہو چکے

اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ OCHA انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی امور کا رابطہ دفتر کہلاتا ہے اور اس کے فلسطینی علاقوں میں سربراہ نے بتایا، ''ہمارے اندازوں کے مطابق گزشتہ اکتوبر سے غزہ پٹی کے ہر دس میں سے نو باشندے جنگ کی وجہ سے اگر پانچ یا دس مرتبہ نہیں تو کم از کم ایک مرتبہ تو داخلی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔‘‘

غزہ کے بحران میں واشنگٹن کا ’ملوث ہونا ناقابل تردید،‘ کئی سابق امریکی حکومتی اہلکار

قریب نو ماہ سے جاری جنگ میں غزہ پٹی کا زیادہ تر حصہ ملبے کا ڈھیر بنن چکا ہےتصویر: Jehad Alshrafi/AP Photo/picture alliance

ڈھائی لاکھ فلسطینیوں کو انخلا کا حکم، جنوبی غزہ پر بمباری

آندریا ڈی ڈومینیکو نے یروشلم سے جنیوا اور نیو یارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''پہلے ہمارا اندازہ تھا کہ بے گھر ہونے والے فلسطینیون کی تعداد 1.7 ملین بنتی ہے۔ لیکن اس تعداد کے تعین کے بعد سے تو غزہ پٹی کے جنوبی شہر رفح میں بھی آپریشن ہوا ہے اور ہم نے دیکھا کہ رفح سے بھی عام شہریوں کو بہت بڑی تعداد میں نقل مکانی کرنا پڑی۔‘‘

''اس کے علاوہ ہم نے شمالی غزہ پٹی میں بھی پھر (اسرائیلی فوجی) کارروائیاں دیکھیں، جن کی وجہ سے مزید لوگ بے گھر ہو گئے۔‘‘

’بار بار نئی زندگی کا آغاز‘

فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی امور کے رابطہ دفتر کے سربراہ نے مزید بتایا کہ ایسے فوجی آپریشنوں کی وجہ سے عام شہری نہ صرف نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں بلکہ انہیں ہر مرتبہ ایک نئی جگہ پر نئے سرے سے زندگی شروع کرنا پڑتی ہے۔

غزہ کی جنگ میں اب تک تقریباﹰ 38 ہزار افراد ہلاک اور 86 ہزار کے قریب زخمی ہو چکے ہیںتصویر: Jehad Alshrafi/Anadolu/picture alliance

آندریا ڈی ڈومینیکو نے جنگ زدہ غزہ پٹی میں پائے جانے والے شدید بحران کی عکاسی کرتے اور عالمی برادری سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ''ان اعداد و شمار کے پیچھے انسان ہیں، زندہ لوگ، جو خوف زدہ بھی ہیں اور دکھی بھی۔ لازمی طور پر ان کے بھی خواب تھے، امیدیں تھیں۔ لیکن مجھے بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان بے گھر انسانوں کے خواب اور امیدیں کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘

حماس کا سات اکتوبر کا حملہ: ایران، شام اور شمالی کوریا کے خلاف مقدمہ

ڈی ڈومینیکو نے صحافیوں کو بتایا، ''یہ لاکھوں بے گھر انسان وہ ہیں، جنہیں گزشتہ نو ماہ سے کسی بورڈ گیم کے پیادوں کی طرح ادھر ادھر حرکت دی جاتی رہی ہے۔‘‘

’دو حصوں میں تقسیم ہو چکی غزہ پٹی ‘

فلسطینی علاقوں میں او سی ایچ اے کے سربراہ کے مطابق اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے غزہ پٹی کا محاصرہ شدہ فلسطینی علاقہ عملاﹰ دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ شمالی غزہ پٹی میں تین لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ تک انسان ایسے ہیں، جن کے لیے جنوبی غزہ پٹی کی طرف نقل مکانی ممکن نہیں ہے۔

رفح میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں سے پہلے وہاں پناہ لینے والے بے گھر فلسطینیوں کا ایک عارضی کیمپتصویر: Bassam Masoud/REUTERS

ڈی ڈومینیکو کے مطابق جب سے غزہ کی جنگ شروع ہوئی ہے، تب سے مئی کے اوائل تک تقریباﹰ ایک لاکھ دس ہزار فلسطینی ایسے بھی تھے، جو رفح بارڈر کراسنگ پار کر کے غزہ پٹی سے رخصت ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ لیکن اب مصر کے ساتھ سرحد پر واقع رفح بارڈر کراسنگ اسرائیلی فوج کے کنٹرول اور بندش کی وجہ سے مئی کے مہینے کے اوائل سے بند ہے۔

غزہ میں کیمپوں کے اردگرد کوڑے کے ڈھیر، مزید بیماریاں پھیلنے کا خطرہ

انہوں نے کہا کہ غزہ کے جو فلسطینی رفح کی سرحدی گزرگاہ پار کر کے مصر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، ان میں سے کچھ تو مزید آگے خطے کے دیگر ممالک کی طرف چلے گئے جبکہ باقی ماندہ ابھی تک مصر ہی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

غزہ کی جنگ شروع کیسے ہوئی؟

غزہ کی تاریخ کی آج تک کی سب سے ہلاکت خیز ثابت ہونے والی موجودہ جنگ گزشتہ برس سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک بڑے دہشت گردانہ حملے کے ساتھ شروع ہوئی تھی، جس میں تقریباﹰ 1200 افراد مارے گئے تھے۔ ان میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔

غزہ پٹی کے لاکھوں شہریوں کو شدید بھوک کے مسئلے کا سامنا بھی ہےتصویر: Abed Zagout/Anadolu/picture alliance

پھر حماس کے سینکڑوں جنگجو واپس غزہ پٹی جاتے ہوئے 250 کے قریب افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ ان میں سے 116 ابھی تک غزہ میں حماس کے قبضے میں ہیں، جن میں سے 42 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ اب تک مارے جا چکے ہیں۔

’غلط اندازہ نئی جنگ کو جنم دے سکتا ہے،‘ جرمن وزیر خارجہ

حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے فوری بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں اس عسکریت پسند تنظیم کے ٹھکانوں پر فضائی اور زمینی حملے شروع کر دیے تھے۔ یوں شروع ہونے والی غزہ کی جنگ کے اب نو ماہ پورے ہونے کو ہیں جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ یہ جنگ حماس کے مکمل خاتمے کے بعد ہی ختم ہو گی۔

غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق اس جنگ میں اب تک غزہ میں کم از کم بھی 37,953 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں خاص کر خواتین اور بچوں کی تھی۔ اس کے علاوہ یہی جنگ اب تک غزہ پٹی میں تقریباﹰ 86 ہزار انسانوں کے زخمی ہونے کا سبب بھی بن چکی ہے۔

م م / ا ا، ک م (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)

غزہ پٹی میں امدادی سامان پہنچانا مشکل کیوں؟

01:48

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں