1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ کی جنگ نے فلسطینی مہاجرین کو ہمیشہ کے لیے بےگھر کر دیا؟

6 اکتوبر 2024

سن انیس سو پچاس میں بے گھر ہونے والے ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کی تعداد آج بڑھ کر تقریباً 60 لاکھ ہو چکی ہے۔ بہت سے فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں بے وطنی، غربت اور امتیازی سلوک سے عبارت ہیں۔

رجسٹرڈ فلسطینی مہاجرین کی تعداد 1950 میں 750,000 سے بڑھ کر آج تقریباً 60 لاکھ ہو چکی ہے
رجسٹرڈ فلسطینی مہاجرین کی تعداد 1950 میں 750,000 سے بڑھ کر آج تقریباً 60 لاکھ ہو چکی ہےتصویر: MOHAMMED ABED/AFP

حماس کے سات اکتوبر 2023ء کے روزاسرائیل پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے اس خطے میں امن کی امید اور فلسطینی پناہ گزینوں کی ان کے پرانے گھروں میں واپسی سمیت سبھی کچھ ختم ہو گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ 1948ءکے مقابلے میں آج کیوں زیادہ فلسطینی باشندے پناہ گزین ہیں، اور ان کی قانونی حیثیت دوسرے مہاجرین سے مختلف کیسے ہے؟

فلسطینی پناہ گزین ہیں کتنے؟

مشرق وسطیٰ میں فلسطینی آبادی کا تخمینہ سات ملین لگایا جاتا ہے، جس کی قانونی حیثیت مختلف ہے۔ اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) کی رپورٹ کے مطابق وہ اس وقت خطے میں 5.9 ملین انسانوں کی مدد کر رہی ہے۔

عرب اسرائیلی جنگ اور 14 مئی 1948 کو اسرائیل کی ریاست کے قیام کے نتیجے میں بے گھر ہوئے فلسطینی اس دور کو ''نکبہ‘‘ یعنی ایک تباہی سے تعبیر کرتے ہیں۔تصویر: CPA Media/picture alliance

یہ فلسطینی مشرقی یروشلم اور لبنان سمیت اردن، شام، غزہ اور مغربی کنارے کے 58 پناہ گزین کیمپوں میں رہتے ہیں ۔

فلسطینی پناہ گزین مصر میں بھی رہتے ہیں، جہاں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ افراد پہنچ چکے ہیں۔ اسرائیل میں بھی 15 لاکھ فلسطینی اسرائیلی شہری رہتے ہیں۔

پناہ گزین کسے سمجھا جاتا ہے؟

UNRWA کے مطابق ان پناہ گزینوں کی تعریف ''ایسے افراد کے طور پر کی گئی ہے، جن کی عام رہائش یکم جون 1946 سے 15 مئی 1948 تک کے عرصے کے دوران فلسطین تھی، اور جنہوں نے 1948 کے تنازعے کے نتیجے میں اپنے گھر اور ذرائع معاش دونوں کھو دیے تھے۔‘‘

اس تعریف کا اطلاق ''فلسطینی پناہ گزین مردوں کی اولاد پر بھی ہوتا ہے، بشمول گود لیے ہوئے بچوں کے۔‘‘ اس کے نتیجے میں رجسٹرڈ افراد کی تعداد 1950 میں 750,000 سے بڑھ کر آج تقریباً 60 لاکھ ہو چکی ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے حالات زندگی کیسے ہیں؟

بہت سے فلسطینی پناہ گزینوں اور ان کے خاندانوں کے روزمرہ کے تجربات غربت اور امتیازی سلوک سے عبارت ہیں۔ بہت سے عرب میزبان ممالک میں فلسطینی پناہ گزین مقامی شہریت حاصل نہیں کر سکتے اور اس لیے وہ کئی دہائیوں سے وہاں بے وطنی کی زندگیاں گزار رہے  ہیں۔

UNRWA کی طرف سے جاری کیی گئی انیس سو باون کی اس تصویر میں لبنان میں واقع فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم ایک مہاجر کیمپ کی حالت زار یکھی جا سکتی ہیںتصویر: S.Madver/UNRWA Photo Archives/AP Photo/picture alliance

UNRWA کے اعداد و شمار کے مطابق صرف لبنان میں ہی تقریباً 80 فیصد فلسطینی پناہ گزین غربت کی قومی لکیر سے نیچے رہتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کوئی جائیداد نہیں خرید سکتے، انہیں سبھی پیشوں میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے اور انہیں تعلیم اور صحت عامہ کے ریاستی نظاموں تک رسائی بھی حاصل نہیں ہے۔

اردن میں تقریباً 2.3 ملین انسان فلسطینی پناہ گزینوں کے طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ یہ واحد عرب ملک ہے، جس نے اس گروپ کو اپنے ہاں شہریت دی ہے۔ اردن کی نصف سے زیادہ آبادی پہلے ہی فلسطینی نژاد ہے۔

شام میں جاری خانہ جنگی کی وجہ سے حالات مسلسل خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ 2021ء میں UNRWA کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ رجسٹرڈ فلسطینی پناہ گزینوں میں سے 82 فیصد مکمل غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیل اور لبنانی حزب اللہ ملیشیا کے درمیان تنازعے کی وجہ سے اب بہت سے فلسطینی واپس شام جا رہے ہیں۔

فلسطینیوں کے لیے مخصوص پناہ گزین ایجنسی کیوں؟

UNRWA آٹھ دسمبر 1949 کو اقوام متحدہ کی ایک قرارداد کے ذریعے قائم کی گئی تھی اور اس نے یکم مئی 1950ء کو اپنا کام کرنا شروع کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر 2022ء میں UNRWA کے مینڈیٹ میں 30 جون 2026 تک کے لیے توسیع کی تھی۔

غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں لاکھوں مزید فلسظینی بے گھر ہو چکے ہیںتصویر: Dawoud Abu Alkas/REUTERS

اس ایجنسی کا کام ان فلسطینیوں کی دیکھ بھال کرنا ہے جو عرب اسرائیلی جنگ اور 14 مئی 1948 کو اسرائیل کی ریاست کے قیام کے نتیجے میں اپنی اولادوں کے ہمراہ بے گھر ہوئے یا اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ فلسطینی اس دور کو ''نکبہ‘‘ یعنی ایک تباہی سے تعبیر کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی یو این ایچ سی آر دنیا بھر میں دیگر تمام مہاجرین اور بے وطن افراد کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ UNRWA کی طرح اس کی بنیاد بھی 1950 میں رکھی گئی تھی۔

دونوں ایجنسیوں کے مابین ذمہ داریوں کی تفریق کا مطلب یہ ہے کہ مصر جیسے ممالک میں، جہاں فلسطینی پناہ گزین موجود ہیں لیکن UNRWA نہیں ہے، متاثرہ افراد ایک طرح کے قانونی خلا میں رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یو ایج ایچ سی آر کے پاس فلسطینی پناہ گزینوں کی دیکھ بھال کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔

اسرائیل  UNRWA کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیو ں کر رہا ہے؟

اسرائیلی حکومت نے UNRWA پر سات اکتوبر کے حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس امدادی تنظیم میں حماس کی طرف سے دراندازی کی گئی۔ ان الزامات کے بعد امریکہ، یورپی یونین اور جرمنی سمیت اس تنظیم کو عطیات دینے والے کئی ممالک  نے UNRWA کو اپنی طرف سے مالی ادائیگیاں معطل کر دیں۔

UNRWA کے سربراہ فلپے لارزینی (بائیں طرف )تصویر: Mostafa Alkharouf/Anadolu/picture alliance

اس کے بعد اقوام متحدہ نے ان الزامات کی اندرونی تحقیقات شروع کر دیں۔ 5 اگست 2024 کو شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ سات اکتوبر 2023ء کو حماس کی قیادت میں اسرائیل کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں ممکنہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے UNRWA کے نو ملازمین کو برطرف کر دیا گیا تھا۔ دس دیگر ملازمین کے خلاف الزامات ثابت نہ ہو سکے۔

اقوام متحدہ کی قرارداد 194 کے آرٹیکل 11 کے مطابق تمام پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے کا حق حاصل ہے، اگر وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنا چاہتے ہوں تو۔ بہت سی عرب ریاستوں کی حکومتوں کی نظر میں یہ آرٹیکل 1948 میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی موجودہ  اولادوں  پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

جرمن انسٹیٹیوٹ برائے بین الاقوامی اور سلامتی امور کے افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے شعبے کے ایک رکن پیٹر لِنٹل کہتے ہیں، ''نکبہ کی تباہی فلسطینی آبادی کے لیے شناخت کا ایک واضح ذریعہ ہے۔ یہ ناانصافی کو واضح کرتی ہے۔‘‘ ان کے خیال میں واپسی کے حق کا مسئلہ ''صرف امن مذاکرات کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ہی حل ہو سکتا ہے اور یہ صرف فلسطینی ریاست کی موجودگی میں ہی قابل فہم ہے۔‘‘

آسٹرِڈ پرانگے، جینیفر ہولائس (ش ر، م م)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں