1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

غزہ کے النصر ہسپتال میں آکسیجن ختم ہونے سے چار مریض ہلاک

16 فروری 2024

اسرائیلی فوج کو مصدقہ اطلاعات ملی تھیں کہ حماس نے اسرائیلی یرغمالیوں کو جنوبی غزہ کے اسی ہسپتال میں چھپا رکھا ہے۔ یو این ایچ سی آر نے کہا ہے کہ رفح پر حملے کی صورت میں پناہ گزینوں کا انخلا ایک تباہی ہو گی۔

Palästina Palästinenser Krankenhaus Säugling Baby Krankenpfleger
تصویر: picture-alliance/dpa

جنوبی غزہ  کے مرکزی النصر ہسپتال میں اسرائیلی دفاعی افواج کی اسپیشل کارروائی کی وجہ سے مریضوں اور عملے کے سینکٹروں اراکین میں افراتفری پھیل گئی۔ اسی دوران غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے حکام نے آج جمعے کے روز  بتایا کہ انتہائی نگہداشت وارڈ میں موجود چار  مریض کی آکسیجن منقطع ہونے کے بعد موت ہوگئی۔

اسرائیلی فوجی اس ہسپتال کی تلاشی لے رہے ہیں،  جہاں ان کی اطلاعات کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے کے دوران اغوا کیے گئے کچھ مغویوں کو رکھا گیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے یہ کارروائی غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں النصر ہسپتال کے تقریباً ایک ہفتے سے جاری محاصرہ کے بعد کی ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے ہسپتال کا عملہ، مریض اور اندر موجود دیگر افراد خوراک اور پانی سمیت رسد کی کمی کے باعث شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ عملے کے افراد  نے بتایا کہ جمعرات کو فوجیوں کی طرف سے  ہسپتال میں کارروائی  سے چند گھنٹے قبل، اسرائیلی فائرنگ سے کمپلیکس کے اندر ایک مریض ہلاک اور چھ دیگر زخمی ہو گئے۔

اسرائیلی فوج نے حالیہ دنوں رفح پر اپنے حملوں میں تیزی لائی ہےتصویر: Bassam Masoud/REUTERS

جنگ بندی پر مذاکرات تعطل کا شکار

اس دوران غزہ میں جنگ بندی پر مذاکرات تعطل کا شکار نظر آتے ہیں اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے آج جمعے کے روز غزہ میں جنگ کے بعد کے امریکی منصوبے خاص طور پر اس کے فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبات کی سختی سے مخالفت کی ہے۔

 صدر جو بائیڈن کے ساتھ بات چیت کے بعد نیتن یاہو نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ اسرائیل 'فلسطینیوں کے ساتھ مستقل تصفیے کے حوالے سے بین الاقوامی احکامات کو قبول نہیں کرے گاُ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دوسرے ممالک یک طرفہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں تو اس سے 'دہشت گردی کا صلہ‘ ملے گا۔ نیتن یاہو نے بارہا فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کیا ہے۔

نیتن یاہو کا حملے جاری رکھنے کا عزم

نیتن یاہو نے غزہ پر حملے جاری رکھنے اور انہیں مصر کے قریب غزہ کے شہر رفح تک پھیلانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس کی مکمل تباہی  اور سات اکتوبر کو اس گروہ کے عسکریت پسندوں کے حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے متعدد افراد کی  رہائی تک جنگ جاری رہے گی۔

امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس نے کہا کہ نیتن یاہو کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت میں صدر بائیڈن نے عام فلسطینی شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے 'قابل اعتماد اور قابل عمل منصوبے‘ کے بغیر رفح میں فوجی آپریشن کے خلاف ایک بار پھر خبردار کیا۔

نیتن یاہو نے حماس کے خلاف حملوں میں تیزی اور مزید وسعت لانے کے عزم کا اظہار کیا ہےتصویر: Ohad Zwigenberg/AFP/Getty Images

 غزہ میں جنگ کے ختم ہونے کے کوئی آثار نظر نہ آنے کے بعد خطے میں وسیع تر تنازعے کا خطرہ بڑھ گیا ہے کیونکہ اسرائیل اور لبنان عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے مابین اسرائیل اور حماس جنگ کے آغاز کے بعد سے تین روزقبل سرحد پر فائرنگ کا سب سے مہلک تبادلہ ہوا۔

حزب اللہ کی جانب سے بدھ کے روز راکٹ حملوں کے جواب میں اسرائیلی فوج نے جمعرات کو دوسرے دن بھی جنوبی لبنان میں فضائی حملے کیے جس  میں 10 شہری اور حزب اللہ کے تین جنگجو مارے گئے۔ حزب اللہ کے حملے میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

'رفح سے پناہ گزینوں کی آمد ایک تباہی‘

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے جمعہ کے روز کہا کہ  رفح سے مصر کے صحرائے سینائی میں پناہ گزینوں کی آمد ایک تباہی ہوگی اور مصری حکام نے واضح کیا ہے کہفلسطینیوں کی ان کے اپنے علاقوں میں مدد کی جانا چاہیے۔

جنوبی جرمنی کے شہر میونخ میں منعقدہ سکیورٹی کانفرنس کے موقع یو این ایچ سی آر کے سربراہ فلیپو گرانڈی نےخبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، "یہ فلسطینیوں ، مصر  اور امن کے مستقبل کے لیے ایک آفت ہوگی۔‘‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مصری حکام نے ممکنہ ہنگامی منصوبوں کے بارے میں یواین ایچ سی آر سے رابطہ کیا ہے تو انہوں نے کہا، "مصریوں نے کہا کہ غزہ کے اندر لوگوں کی مدد کی جائے اور ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔"

ش ر/ ع ب/ ک م (اے پی)

غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کی زمینی کاررائیوں میں اضافہ

02:30

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں