غزہ ہسپتال پر حملہ، عرب ممالک غیر معمولی دباؤ میں
20 اکتوبر 2023گزشتہ منگل کو غزہ کے ال اہلی ہسپتال پر خونریز حملے کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے گرچہ اسرائیل کہہ چُکا ہے کہ وہ اس دہشت گردی کا ذمہ دار نہیں ہے تاہم اس واقعے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کی ابھی تک آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ غزہ ہسپتال پر حملے نے پورے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میںاسرائیلی فوج کے خلاف غصے اور شدید مذمت کو جنم دیا ہے۔
یروشلم میں قائم عبرانی یونیورسٹی کے شعبے ''اسلامک اینڈ مڈل ایسٹرن اسٹڈیز‘‘ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر سائمن وولف گانگ فوکس کہتے ہیں،''صورتحال ناقابل یقین حد تک غیر مستحکم ہے اور ال اہلی ہسپتال کی تباہی و مصائب کی تصویروں نے پورے خطے کو پریشان کر دیا ہے۔‘‘
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال پر حملے کے بعد کچھ علاقائی رہنماؤں کا ردعمل ممکنہ طور پر اسٹریٹجک تھا۔ فوکس نے کہا،''مغربی ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کرنے والے عرب سیاست دان شدید دباؤ میں ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے فوری طور پر اس واقعے کی مذمت کی اور اسرائیل پر اس کا الزام عائد کیا۔‘‘
مثال کے طور پر مصر پر غزہ کے ساتھ رفح بارڈر کراسنگ کو کھولنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ بڑھ رہا ہے تاکہ امداد کی ترسیل کی اجازت دی جا سکے۔ ہسپتال میں دھماکے کے فوراً بعد مصر کی وزارت خارجہ نے اس حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے ''شہریوں پر جان بوجھ کر بمباری‘‘ کرنے کا الزام لگایا۔
فضائی حملے
اسرائیل کی طرف سے محاصرے کے دوران غزہ پٹی پر بمباری کی گئی۔ یہ حملے حماس عسکریت پسند گروپ کی طرف سے کیے گئے حملے کا براہ راست رد عمل ہے۔ حماس فلسطینیوں کا وہ عسکریت پسند گروپ ہے، جسے یورپی یونین، امریکہ، جرمنی اور دیگر حکومتوں کی طرف سے '' دہشت گرد تنظیم‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔ حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں قریب 1400 افراد ہلاک ہوئے، ساتھ ہی حماس نے قریب 200 افراد کو یرغمال بنایا اور انہیں اپنے ساتھ واپس غزہ لے گئے۔
غزہ پٹی پر کنٹرول کرنے والے عسکریت پسند گروپ حماس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) کے حملے میں غزہ کا ہسپتال تباہ ہو گیا جبکہ اسرائیلی فوج اس کی تردید کر رہی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ہسپتال کی تباہی اور سینکڑوں ہلاکتوں کا ذمہ دار شدت پسند اسلامی جہادی گروپ ہے، جس نے غزہ کے اندر سے راکٹ فائر کیا تاہم اس کا نشانہ خطا ہوا۔
اُدھر اسرائیل کے دورے پر گئے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے بُدھ کو تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے مخاطب ہو کر اپنے بیان میں کہا،''میں نے پینٹاگون کی طرف سے پیش کردہ ویڈیو اور آڈیو مواد کا جائزہ لیا اور جو کچھ دیکھا، اُس کی بنیاد پر ایسا لگتا ہے کہ یہ حملہ دوسری ٹیم نے کیا، اسرائیل نے نہیں۔‘‘ ساتھ ہی امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا،'' وہاں بہت سے لوگ اس حملے کی وجوہات کے بارے میں غیر یقینی کا شکار ہیں۔‘‘
ایک 'بھیانک جرم‘
گزشتہ منگل کو اردن، جس نے 1994ء میںاسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے، بائیڈن، فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے ساتھ طے شدہ چار فریقی سربراہی اجلاس کو منسوخ کر دیا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفادی نے قومی ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے ایک بیان میں کہا،''جنگ اس پورے خطے کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔‘‘ الصفادی کا مزید کہنا تھا،'' اس اجلاس کے انعقاد تک اردن سب کے ساتھ مل کر کام کرتا رہے گا تاکہ اس کے مقاصد حاصل ہو سکیں۔ یعنی جنگ کو روکنا، غزہ کے عوام تک انسانی امداد کی رسائی ممکن بنانا اور اس بحران کا خاتمہ کرنا۔‘‘
دریں اثناء محمود عباس نے اپنے بیان ''ایک خوفناک جرم اور نسل کشی‘‘ کی بات کی اور کہا کہ اس کے ذمہ دار اسرائیل کی حمایت کرنے والے تمام ممالک ہیں۔‘‘
تحمل کا مطالبہ
خطے سے باہر سے بھی اسرائیل کو اُس کے اتحادیوں کی طرف سے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔ یورپی کونسل برائے خارجہ تعلقات سے منسلک فیلو سنزیا بیانکو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکی حکام بھی اباسرائیل کی غیر مشروط حمایت سے کچھ پیچھے ہٹے ہیں اور مزید تشدد اور ممکنہ طور پر خطے میں تنازعات کو پھیلنے سے روکنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘
رملہ میں سرگرم جرمنی کی آڈیناؤور فاؤنڈیشن کے مقامی دفتر کے سربراہ اشٹیفن ہؤفنر کا تاہم کہنا ہے کہ لڑائی کے ممکنہ اختتام کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک غم و غصہ برقرار رہے گا۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر بہت سے افراد اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ممکنہ جنگ بندی کے بعد بھی، جو کچھ گزشتہ دنوں میں ہوا، وہ اُسے نہیں بھولیں گے۔
(کرسٹن کنپ، ہولاسز جینیفر) ک م/ ا ا/ ع ا