غلامی کے خاتمے کی جنگ اور چند تلخ حقائق
20 اکتوبر 2013دنیا بھر میں غلام مزدوروں کی تعداد قریب 30 ملین ہے۔ بہت سے کروڑ پتی افراد نے مل کر ایک ایسی فاؤنڈیشن قائم کی ہے جس کے زیر اہتمام ان انسانوں کے استحصال سے متعلق اعداد و شمار پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کی گئی ہے۔ اس فاؤنڈیشن کا مقصد غلامی کے خاتمے کی جنگ لڑنا ہے۔ اس فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ چند دہائیوں کے اندر دنیا سے غلامی کا مکمل خاتمہ ہو جانا چاہیے۔
افریقہ سے تعلق رکھنے والی لوویزا کی عمر 14 برس تھی جب اُس کے دلال نے اُسے بُری طرح زد و کوب کیا تھا۔ اس ظالم سے جان بچاتے ہوئے وہ فرار کی تلاش میں ایک ایسے شخص تک پہنچ گئی جو ماضی میں اُس کی عصمت دری کر چُکا تھا۔ اُسی وقت اُسے خبر ملی کہ افریقہ میں اُس کے رشتہ داروں کا قتل ہو گیا ہے۔ اُس کے دلال نے یہ خبر اُسے ٹیلی فون پر دی ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اُس کے رشتے داروں کے قاتل کو خود اُس نے اس قتل کے لیے بھیجا تھا۔ یہ بھیانک کہانی ضرور معلوم ہوتی ہے تاہم یہ سچ ہے اور دنیا میں اب بھی لاتعداد انسانوں کا مقدر یہی ہے۔ اسے غلامی کی جدید شکل کہنا غلط نہ ہوگا۔
لوویزا اس امید کے ساتھ جرمنی آ گئی کہ یہاں وہ اسکول جا سکے گی۔ ایک بار اُس کے گاؤں ایک شخص آیا تھا جس نے لوویزا سے وعدہ کیا تھا کہ جرمنی میں وہ اسکول جا سکے گی۔ یتیم لڑکی لوویزا کو اپنی بقاء کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ وہ جرمنی آ گئی جہاں اُسے عصمت فروشی پر مجبور کیا گیا۔ لوویزا نے جرمن ریڈیو کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، "میں نے افریقی مذہبی عقیدے وعدو کے تحت یہ وعدہ کیا تھا کہ میں پولیس سے رجوع نہیں کروں گی‘‘۔ تاہم جب اس نے عملی طور پر ایسا کیا تو اُس کے جسم سے خون کا اخراج شروع ہو گیا۔ لوویزا کے بقول، "ایک نوجوان لڑکی کے لیے یہ کتنا مشکل تھا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ میرے جسم سے خون بہنا شروع ہوا اور تین سال ہونے کو آئے یہ بند ہونے کا نام نہیں لے رہا۔"
30 ملین انسان غلامانہ مزدوری پر مجبور
گلوبل سلیوری انڈکس 2013ء کی ایک مطالعاتی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 30 ملین افراد جدید غلامی کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان سے ان کی آزادی چھین لی گئی ہے، ان پر 24 گھنٹے کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور ان کا استحصال ہو رہا ہے۔ ’ واک فری فاؤنڈیشن‘ نے اس بارے میں تفصیلی کوائف اکٹھا کیے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ غلام افریقہ اور ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر بھارت، چین ، پاکستان اور افریقی ملک نائجیریا کا نام ہے۔ اس کے علاوہ روس کا شمار بھی اس فہرست کے ٹاپ ٹن یا چوٹی کے دس ممالک میں ہوتا ہے۔ اس مطالعاتی رپورٹ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اس اکیسویں صدی میں دنیا کا کوئی براعظم اور کوئی ملک غلاموں اور جبری غلامی سے پاک نہیں ہے۔ موریطانیہ میں نابالغ لڑکیوں کے ساتھ جبری شادی کا رواج اتنا عام ہے کہ اگر اس عمل کو بھی غلامی کے زمرے میں رکھا جائے تو یہ ملک اس فہرست میں ہیٹی اور پاکستان سے اوپر ہوگا۔
تکلیف دہ حقائق
جنسی استحصال کے ضمن میں روس اور انسانوں کے کاروبار کے لیے مشرقی یورپی جمہوریہ مالدووا کا شمار چوٹی کے مملک میں ہوتا ہے۔ اسی طرح افریقی ملک کانگو میں قانون کی بالادستی کے فقدان کے سبب انسانوں کے ساتھ غلامانہ سلوک عام ہے جب کہ چین میں جبری مشقت عروج پر ہے۔
دُکھ کی بات یہ ہے کہ یورپ کی اقتصادی شہ رگ سمجھے جانے والے ملک جرمنی میں بھی غلاموں جیسی زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد دس ہزار پانچ سو بتائی جاتی ہے۔ یہ اعداد و شمار بھی ’واک فری فاؤنڈیشن‘ نے اپنی مطالعاتی رپورٹ میں شامل کیے ہیں۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ جرمنی جیسے ملکوں میں انسانوں کے ساتھ ہونے والا غلامانہ سلوک اتنا پوشیدہ ہے کہ متاثرین کی تعداد کا صحیح اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
شامل شمس