1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’غلط اندازہ نئی جنگ کو جنم دے سکتا ہے،‘ جرمن وزیر خارجہ

26 جون 2024

حماس کی لبنانی اتحادی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ اور اسرائیلی فوج کے مابین جاری جھڑپوں کے سبب علاقائی جنگ کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اُدھر شہر رفح سے اسرائیلی فوج اور فلسطینی عسکریت پسندوں کی نئی جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔

Bei einem israelischen Luftangriff in Rafah wurden 25 Menschen getötet und 50 verletzt
تصویر: Jehad Alshrafi/Anadolu/picture alliance

چھبیس جون بدھ کو غزہ پٹی سے موصولہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ایک ایسے وقت پر جب اسرائیل اور لبنانی تنظیم حزب اللہ کے مابین جاری جھڑپوں کے سبب ایک علاقائی جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں، غزہ پٹی کے جنوبی شہر  رفح میں اسرائیلی فوج اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ یہ اطلاعات عینی شاہدین نے دیں۔

اسرائیلی  وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے چند روز پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ جنگ کا ''شدید مرحلہ‘‘ اپنے اختتام کے قریب ہے اور اسرائیلی وزیر دفاع نے بحرانی بات چیت کے لیے واشنگٹن کا دورہ بھی کیا تھا۔ اس کے بعد چند روز سے اسرائیلی فوجی حملوں میں کچھ کمی دیکھی گئی تھی۔

حزب اللہ کی عسکری صلاحیتیں کتنی جدید ہیں؟

02:29

This browser does not support the video element.

غزہ کی جنگ کے قریب دس مہینے

سات اکتوبر 2023 ء کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے اسرائیل پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے جاری غزہ  پٹی کی جنگ جیسے جیسے اپنے دسویں مہینے میں داخل ہونے کو ہے، ویسے ہی اسرائیل کے سب سے بڑے اتحادی امریکہ نے تل ابیب کو سرحد پار فائرنگ کے واقعات میں اضافے کے بعد لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے ساتھ ایک بڑے مسلح تنازعے کے خطرات سے خبردار بھی کیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے امریکہ کے دورے پر گئے ہوئے اپنے اسرائیلی ہم منصب یوآو گیلینٹ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک اور جنگ با آسانی ایک علاقائی جنگ بن سکتی ہے، جس کے مشرق وسطیٰ پر خوفناک نتائج مرتب ہوں گے۔‘‘ آسٹن کا مزید کہنا تھا، ''کشیدگی میں مزید اضافے اور حالات کو سنگین تر ہونے سے روکنے کے لیے سفارت کاری بہترین طریقہ ہے۔‘‘

لبنان کی سرحد سے نزدیک اسرائیلی فوج اور بکتر بند گاڑیاں تصویر: Jim Hollander/UPI Photo/Newscom/picture alliance

لبنان پر حملے کی توثیق

اسرائیلی  فوج نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ لبنان پر حملے کے منصوبے کو ''منظور کر لیا گیا ہے اور اس کی توثیق کر دی گئی ہے۔‘‘ اسرائیل کی طرف سے یہ بیانات لبنانی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ کی طرف سے تازہ دھمکیوں کے سامنے کا سبب بنے۔

ادھر مشرق وسطیٰ کے دورے پر گئی ہوئی جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے کل منگل کو بیروت میں حالات کی سنگینی میں اضافے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا، ''کوئی بھی غلط اندازہ ایک نئی علاقائی جنگ کو جنم دے سکتا ہے۔‘‘ جرمن وزیر خارجہ نے موجودہ حالات میں ''انتہائی تحمل‘‘ کے مظاہرے پر زور دیا۔

آئی سی جے کا فیصلہ، اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کرے گا؟

02:44

This browser does not support the video element.

ادھر ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے نے آج بدھ کے روز مغربی طاقتوں پر اسرائیل کی پشت پناہی کرنے کا الزام عائد کیا، جو اب ''لبنان پر اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہے۔‘‘ ترک صدر کے بقول اس طرح جنگ کے خطے میں پھیل جانے کے خدشات پیدا ہو چکے ہیں۔

رفح سے مزید لاشیں برآمد

مصر کے ساتھ غزہ پٹی کی سرحد پر واقع رفح کے علاقے سے عینی شاہدین نے گزشتہ رات ہونے والی جھڑپوں کی اطلاع دی جبکہ  اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس کی فضائیہ نے راکٹ لانچ کرنے کی ایک جگہ پر حملہ کیا۔

غزہ جنگ کے متاثرہ قریب 495,000 افراد کو اب قحط کا سامناتصویر: Doaa Albaz/Anadolu/picture alliance

دریں اثنا حماس کے زیر انتظام غزہ میں سول ڈیفنس ایجنسی کے ایک اہلکار محمد المغیر نے اے ایف پی کو بتایا کہ امدادی کارکنوں نے ''گزشتہ چند گھنٹوں میں رفح شہر کے مختلف علاقوں سے مزید 15 لاشیں نکالی ہیں۔‘‘

اسی دوران فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ریلیف کا کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی  UNRWA کے سربراہ نے  غزہ  کی جنگ کے بچوں پر سنگین اثرات کے خلاف خبردار کیا ہے۔ فیلیپے لازارینی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ہمارے پاس ہر روز اوسطاﹰ دس ایسے بچے آتے ہیں، جو ایک یا دونوں ٹانگوں سے محروم ہوتے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''دس بچے روزانہ، اس کا مطلب ہےکہ اس وحشیانہ جنگ کے 260 دنوں میں اب تک ایسے بچوں کی تعداد دو ہزار سے تو تجاوز کر ہی چکی ہے۔‘‘

دوسری طرف عالمی امدادی اداروں نے غزہ پٹی میں شدید قحط کی صورت حال کے خلاف انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پٹی کی مجموعی آبادی کے تقریباﹰ پانچویں حصے یا قریب 495,000 افراد کو اب بھی تباہ کن نوعیت کے غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔

ک م/ م م، ر ب (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں