غیرت کے نام پر قتل کا ناسوراکیسویں صدی میں بھی
21 مارچ 2012قانونی اور روایتی اعتبار سے اس طرح کے قتل کو عام قتل نہیں بلکہ غیرت کے نام پر قتل گردانا جاتا ہے۔ یہ فرسودہ روایت صوبہ سندھ میں کارو کاری کہلاتی ہے، پنجاب میں کالا کالی، سرحد میں طورطورہ اور بلوچستان میں سیاہ کاری۔ نام کوئی بھی ہو ، قدیم روایات اور رسم ورواج طویل عرصے سے خواتین کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں ۔ کیونکہ اکثر اس رسم کی بھینٹ چڑھنے والی صرف خواتین ہوتی ہیں اور مردوں کی جان بچ جاتی ہے۔
المیہ تو یہ ہے کہ تعلیم اور شعور رکھنے والے بہت سے گھرانے بھی ایسے ہیں جو اس فرسودہ رسم کو معیوب نہیں سمجھتے۔ کچھ لوگ بغیر گناہ کا ثبوت حاصل کیے معاشرے میں اپنی عزت بچانے کے لیے تو کچھ معاشرے کی لعن طعن کے آگے مجبور ہوکر اپنی گھر کی عورتوں کو روایات کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے کسی الزام کی تحقیق کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی۔
عزت کے نام پر واجب القتل قرار دی جانے والی عورتوں میں سے چند ایک ہی اپنی جان بچا کر کسی پناہ گاہ کا رخ کر پاتی ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون کراچی سے چار سو اسی کلو میٹر دور آبادی کے لحاظ سے صوبہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے دارالامان پہنچنے والی حاکم زادی ہیں۔ کندھ کوٹ سے تعلق رکھنے والی پینتالیس سالہ حاکم زادی کو گھر کی چار دیواری چھوڑ کر دارالامان میں پناہ کی ضرورت کیوں پیش آئی: ’’میرے میکے والوں نے مجھے شادی میں کافی جہیز اور زیور دیا تھا۔ میرا شوہر کراچی آیا اور نئے کاروبار کے لیے میرا سارا زیور بیچ دیا۔ کاروبار میں منافع ہوا اور اس نے اپنا گھر بنا لیا۔ اس نے دوسری شادی کر لی اور مجھے گھر سے نکال دیا۔ میں بھائیوں کے پاس آئی تو اس نے پیغام دیا کہ واپس نہ لوٹوں۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں کاری قرار دیتا ہوں اور اگر تم واپس لوٹیں تو تمھیں قتل کر دوں گا۔ میرے دو معذور بچے ہیں۔ اس نے وہ بھی چھین لیے۔‘‘
شوہر کی طرف سے کاری قرار دے کر قتل کی دھمکی کے بعد حاکم زادی کو ناچار پولیس اور پھر دارالامان میں پناہ لینی پڑی۔ یہ صرف حاکم زادی کا ہی المیہ نہیں کہ اسے بے گناہ ہونے کے باوجود اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔
اکثر مرد اپنے دیرینہ جھگڑے مٹانے، زمین وزر کے حصول، قرض سے گلو خلاصی، دوسری شادی، کسی ناپسندیدہ عورت سے چھٹکارے یا اسی طرح کے اور بہت سے مقاصد کے حصول کے لیے بھی عورت پر کسی دوسرے مرد سے تعلقات کا الزام عائد کر دیتے ہیں اور کاری قرار دیتے ہوئے اسے قتل کردیتے ہیں۔ یہ لیبل بعض اوقات اپنے مخالف کی جان لینے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ پانچ سو خواتین غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتی ہیں۔ سکھر میں اے ڈی آئی جی کرائم شوکت علی عباسی کے مطابق سکھر،گھوٹکی، خیرپور اور نوشہرو فیروز ڈسٹرکٹ میں دو ہزار نو اور دو ہزار دس میں تقریباﹰ ایک سو چوالیس کیسز درج ہوئے۔ ان میں اڑتالیس مردوں اور ایک سو انیس خواتین کو کارو کاری قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔ جبکہ ایک سو اڑتیس افراد پر مقدمات درج کیے گئے: ’’دو ہزار گیارہ میں سندہ کے چار اضلاع سے پچاسی کیس رپورٹ ہوئے جس میں تیس مرد اور تہتر خواتین قتل ہوئیں۔ ہمیں بانوے لاشیں ملیں جبکہ گیارہ لاشیں اب تک نہیں مل سکی ہیں کیونکہ ان لاشوں کو دریا میں بہا دیا جاتا ہے۔‘‘
سندھ پولیس نے اقوام متحدہ کے ادارے UNDP کے تعاون سے سندھ کے ان چاروں اضلاع میں کارو کاری کی روک تھام کے لیے ایک منصوبہ دو ہزار نو سے شروع کر رکھا ہے۔ اس کے تحت کارو کاری کا شکار افراد کو تحفظ اور اس کی روک تھام کے لیے اگاہی پروگرام شروع کیے گئے۔ اے ڈی آئی جی کرائم شوکت علی عباسی: ’’ہم کارو کاری کے کیس درج کر کے اسے عدالت تک لے جاتے تھے۔ متاثرین کی سہولت کے لیے چاروں اضلاع میں وکیلوں کا پینل بنایا تھا۔ ہر ضلع میں چار ایڈوکیٹ ہوتے تھے جو رضا کارانہ طور پر بغیر کسی فیس کے ہمارے ساتھ کام کرتے۔ کچھ کیسز میں ریفر کرتا تو وہ عدالتوں میں اس کی پیروی کرتے تھے۔ ہم نے کافی تربیتی پروگرام بھی کیے۔ ہر ضلع میں تھانے کے تفتیشی افسران کو تربیت دی اس طرح کے کیسز کے سلسلے میں۔ یہ پروگرام کسی حد تک کامیاب رہا اور اب تک ہم سترہ ایسی خواتین کی جان بچا چکے ہیں جنہیں ان کے گھر والے قتل کر رہے تھے۔‘‘
پولیس کے مطابق کاروکاری کو قتل کے عام مقدمات کی طرح نہیں بلکہ علیحدہ طرح سے نمٹایا جاتا ہے۔ کیونکہ عام طور پر کارو کاری میں قتل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا جاتا ہے۔ شوکت علی کے مطابق: ’’ایک شخص رضا کارانہ طور پرکاری کو قتل کرنے کی حامی بھرتا ہے۔ اس کو عورت کے والد، بھائی، شوہر یا سسرال والوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ سارے گھر کے افراد اس قتل کے حق میں ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں ہم اسٹیٹ کو مدعی بناتے ہیں۔ عام قتل کیس میں تو متاثرین معاف کر سکتے ہیں اور قاتل رہا ہو سکتا ہے لیکن کارو کاری کے سلسلے میں کیے جانے والے قتل میں کسی صورت معافی نہیں دی جاتی ہے‘‘۔
گو کہ ان قدیم روایات کے خلاف کئی پلیٹ فارمز سے آوازیں بلند کی جا رہی ہیں، قانون سازی کی جا رہی ہے، ان کو روکنے کے لیے کئی منصوبے شروع کیے گئے مگر اس سب کے باوجود فرسودہ روایات کے پنجرے میں دم توڑتی عورتوں کی تعداد بڑھنا کسی بھی معاشرے کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ، کراچی
ادارت: کشور مصطفیٰ