1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیرت کے نام پر قتل کے بيس فيصد واقعات کا تعلق بھارت سے

عاصم سليم1 دسمبر 2013

اقوام متحدہ کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق عالمی طور پر رونما ہونے والے غيرت کے نام پر قتل کے ہر پانچ واقعات ميں سے ايک کا تعلق جنوبی ايشيائی رياست بھارت سے ہے۔

تصویر: AP

حال ہی میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے نواحی علاقے ميں ايک چودہ سالہ طالبہ اور اسی گھر کے ايک پچاس سالہ ملازم کو قتل کر ديا گيا تھا۔ پوليس نے اروشی اور ہيمراج کے قتل کا مقدمہ درج کر ليا۔ يہ مقدمہ تلوار خاندان سے تعلق رکھنے والے اروشی کے والدين کے خلاف درج کيا گيا۔ اسپيشل سينٹرل بيورو کے جج شيام لال نے ملزمان کو قصور وار ٹھہراتے ہوئے بتايا کہ دندان سازی کے شعبے سے وابستہ اس جوڑے نے اپنی بيٹی اور اپنے ملازم کو ’قابل اعتراز رشتے‘ ميں پايا۔

اگرچہ کئی افراد نامناسب شواہد کے سبب عدالتی فيصلے سے اتفاق نہيں رکھتے تاہم اس کيس نے بھارت کے ايک اہم مسئلے کو دوبارہ ذرائع ابلاغ کا موضوع ضرور بنا ديا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال دنيا بھر ميں غيرت کے نام پر قتل کے قريب پانچ ہزار کيس رپورٹ کيے جاتے ہيں اور ان ميں سے قريب ايک ہزار کا تعلق بھارت سے ہوتا ہے۔ جبکہ اس شعبے سے وابستہ متعدد تنظيموں کے اندازوں کے مطابق غيرت کے نام پر قتل کے سالانہ واقعات کی تعداد قريب بيس ہزار ہے۔

پاکستان اور افغانستان ميں طالبان خواتين کے خلاف سخت گير رويے رکھتے ہيںتصویر: picture-alliance/dpa

بھارت ميں گزشتہ چند سالوں ميں ايسے کئی واقعات ذرائع ابلاغ کا مرکز بنتے رہے ہيں، جن ميں غيرت کے نام پر قتل کيا گيا ہو۔ تاہم نيوز ايجنسی آئی پی ايس کے مطابق کيس تو متعدد سامنے آ رہے ہيں ليکن قصور واروں کو انصاف کے کٹہرے تک کم ہی پہنچايا جاتا ہے۔

سوال يہ اٹھتا ہے کہ کيا بھارت ميں اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے؟ اس سلسلے ميں اقوام متحدہ کے آبادی سے متعلق فنڈ کے ليے کيے گئے ايک مطالعے ميں کچھ ايسی تجاويز بھی دی جا چکی ہيں۔ اس کے علاوہ متعدد تنظيموں نے علاقائی پنچائتوں کے حوالے سے بھی آوازيں اٹھائی ہيں، جو مبينہ طور پر غيرت کے نام پر قتل کی حمايت کرتی ہيں۔ غيرت کے نام پر قتل کے واقعات نہ صرف بھارت کے ديہی بلکہ وہاں کے شہری علاقوں ميں بھی رپورٹ کيے جاتے ہيں۔

غيرت کے نام پر قتل صرف بھارت کا ہی مسئلہ نہيں بلکہ پڑوسی ممالک پاکستان، افغانستان اور بنگلہ ديش ميں بھی اس حوالے سے واقعات رپورٹ کيے جاتے ہيں۔ کئی ملکوں ميں آج بھی يہ واضح نہيں ہے کہ اس جرم کے زمرے ميں در اصل آتا کيا کيا ہے۔ تيزاب کے حملے، تشدد، اغواء يا جسمانی اعضاء کے کاٹنے کا عمل بھی اس جرم کے زمرے ميں آتا ہے۔

انسانی حقوق سے منسلک تنظيموں کے مطابق اس حوالے سے شعور و آگہی کی کمی کے سبب کئی مرتبہ متاثرين کو انصاف نہيں مل پاتا اور کئی خاندان ايسی اموات کو خود کشی کا نام دے کر سزا سے بچ جاتے ہيں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں