پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سیاسی، سماجی، اقتصادی، غرض ہر طرح کے مسائل کے دلدل میں دھنستی ہوئی جنوبی ایشیا کی اس ریاست پر تارکین وطن بہت بھاری اقتصادی بوجھ ہیں۔ اسے کم کرنے کے لیے حالیہ نگراں حکومت نے بغیر کاغذات کے تارکین وطن کو یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے یا گرفتاری یا بے دخلی کا سامنا کرنے کی مہلت دی تھی۔ پاکستان میں بغیر کاغذات کے رہنے والے غیر ملکی شہریوں کی اکثریت افغانوں کی ہے اس لیے ہر طرف چرچہ افغان شہریوں کی پاکستان سے ملک بدری کا ہی ہو رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے کیے گئے اس اعلان سے پہلے قریب 17 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم تھے۔ کئی افغان شہری کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں، جو تنازعات کے دوران پڑوسی ملک سے فرار ہو کر پاکستان آ بسے تھے۔
لیکن اس سکے کا دوسرا رُخ بھی ہے۔ پاکستان میں افغانوں کی اتنی بڑی تعداد کی آمد ملک کے طویل ترین آمرانہ دور میں ہوئی تھی۔ تب فوجی آمر ضیاء الحق کو ملکی اور علاقائی سطح کے سیاسی منظر نامے پر ایک تیر سے دو نہیں کئی شکار کرنا تھے، اس لیے راتوں رات افغان مہاجرین کو ملک کے ہر حصے میں نہ صرف آکر بسنے کی اجازت دی گئی بلکہ ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں ملک کے چند اہم ترین اقتصادی شعبوں میں شامل بھی کر لیا گیا۔
افغان تاریخی اعتبار سے تجارت میں ماہر ہوتے ہیں۔ پاکستان آکر افغان مہاجرین نے اس ملک کی اقتصادی شہ رگ یعنی کراچی جیسے شہر کی ''لائف لائن‘‘ یعنی ٹرانسپورٹ کے شعبے پر چھانے کے علاوہ بڑے بڑے شاپنگ مالز سے لے کر گلیوں، کوچوں تک چھوٹے بڑے بزنس کا ایسا جال بچھایا کہ اس شعبے میں کسی دوسرے کے لیے داخل ہونے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ دوسری جانب ''کابلی پلاؤ، نان، کڑاہی، تکہ بوٹی‘‘ غرض ایک عام انسان کی دلچسپی کی چیزوں کا کاروبار پھیلنے کے ساتھ ساتھ'' کلاشنکوف اور نارکوٹکس‘‘ کا ایک کلچر دیکھتے ہی دیکھتے معاشرے کے مرکزی دھارے میں سرائیت کر گیا۔ اُس وقت ارباب اختیار کو یہ چیزیں نہ تو غیر قانونی لگیں نہ ہی ان کے بھیانک اثرات کا ادراک ہوا۔
ضیاء دور کے بعد نام نہاد، ٹوٹی پھوٹی جمہوری حکومتوں نے بھی اپنی اپنی توجہ قومی خزانے کو خالی کرنے، دُبئی اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں کو بھرنے جیسے اہم کاموں پر لگائی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کام میں پاکستانی سیاستدانوں، ارباب اختیار، سادے لباس والے اور باوقار وردی پوش سب نے ہی انتہائی محنت اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا۔
گزشتہ چند سالوں سے پاکستان محض ایک سیاسی اکھاڑہ بنا ہوا ہے جہاں ریفری کا کردار ادا کرنے والے وہی ہیں جو ملک کی 76 سالہ تٰاریخ میں شروع سے ابھی تک رہ رہ کر خود بھی اسی اکھاڑے میں کودتے رہتے ہیں اور جہاں موقع ملے ضرب لگا کر اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے داؤ لگا جاتے ہیں۔ یہ کھیل بین الاقوامی شائقین کے لیے بے حد دلچسپ ہے اور مستقبل میں بھی رہے گا۔ اس لیے اسے ذوق و شوق سے قائم و دائم رکھنے کے لیے بیرونی امداد ہمیشہ سے جاری تھی اور آئندہ بھی رہے گی۔ لیکن جب بھی پاکستان نے اپنے حقیقی مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے عالمی امداد چاہی، اسے بلا کسی شرط کے نہیں ملی۔
اس وقت پاکستان سیاسی اور اقتصادی طور پر ایک بند گلی میں ہے۔ ایسے میں حکومت اور اس وقت اس کا ساتھ دینے والی قوتیں بھرپور کوششیں کر رہی ہیں کہ عوام کو یقین دلایا جائے کہ حکمران پوری نیک نیتی سے ملک کو مزید تباہی سے بچانے اور ان کے گہرے مصائب و آلام سے انہیں نکالنے کے لیے بہت تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ ملک سے غیر رجسٹرڈ تارکین وطن جن میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے، ان کو نکل جانے کی ڈیڈ لائن دینا بھی عوام کو دکھانے کی ایک ایسی ہی کوشش ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہ ملک کی اقتصادی صورتحال کسی حد تک مستحکم ہوئی ہے۔ پیٹرول کی قیمتوں میں کچھ کمی آئی ہے اور اسے پاکستان میں موجودہ سیاسی ماحول میں بہتری کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ملکی اسٹاک مارکیٹ میں بہتری کو دو حالیہ واقعات کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایک پاکستانی الیکشن کمیشن کا اگلے عام الیکشن آٹھ فروری کو کروانے کا اعلان اور دوسرا بین الاقوامی مالیاتی فنڈ آئی ایم ایف کے ایک جائزہ مشن کی پاکستانی حکام کے ساتھ تفصیلی ملاقات۔
ابھی چند روز پہلے ہی امریکی ملٹی نیشنل انویسٹمنٹ بینک اور مالیاتی خدمات کے معروف گروپ گولڈمین سیکس کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستانی روپے کی قدر میں یہ حالیہ اضافہ عارضی ہے اور پاکستانی کرنسی بہت جلد کریش ہو جائے گی۔ حکومت اس وقت اعداد و شمار کی جو بھی جادوگری دکھائے حقیقت یہ ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپپہ شدید دباؤ کا شکار ہے کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس جو ریزرو ہیں وہ بشمول نجی بینکوں کے ریزرو کے بمشکل بارہ تیرہ ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہیں۔ چوبیس کروڑ کی آبادی والے اس ملک کو آئندہ کچھ مہینوں میں اربوں ڈالر کی ادائیگیاں کرنا پڑیں گی۔ یہ کیسے ہو سکے گا اور ایسی صورتحال میں جو مصنوعی اپریسی ایشن کے دعوے کیے جا رہے ہیں، اس کی قلعی بھی کھل جائے گی۔ معیشت بری طرح ہچکولے کھا رہی ہے۔ پاکستان مستقبل قریب میں مزید بڑے اقتصادی بحران سے دو چار ہوگا۔
پاکستان کی قومی ایئر لائن کا زوال، اسٹیل مل اور ریلوے جیسے اہم ترین اداروں کی زبوں حالی۔ یہ سب کچھ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ملکی اقتصادیات مکمل تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ رہی سہی کثر کسی بھی ملک کا ستون سمجھے جانے والے ادارے جیسے کہ عدلیہ، مقننہ اور انتظامیہ تینوں ناکامی کی مثال بنی ہوئی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ کیا ملک سے غیر رجسٹرڈ تارکین وطن کو نکال کر ریاست تمام مسائل حل کر لے گی؟ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ریاست ملکی معیشت اور سیاست کو کہاں پہنچا چُکی ہے؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔